رویت ہلال کا مسئلہ

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پر جذباتیت اور ضد کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq August 25, 2012
[email protected]

گپ شپ تو بہت ہو چکی ہے عید کے بارے میں، چندا ماموں کے بارے میں اور عیدوں کی ''عیدگی'' کے بارے میں ۔۔۔ یہ ''عیدگی'' اس عیدی سے بہت ہی مختلف چیز ہے جو بڑے اپنے چھوٹوں کو عید کی خوشی میں دیتے ہیں بلکہ ''عیدگی'' وہ ہے جو ''چھوٹے'' یعنی عوام الناس اپنے بڑوں یعنی حکومت اور دکانداروں سرمایہ داروں کو دیتے ہیں بلکہ ایک فرق یہ بھی ہے کہ ''عیدی'' دی جاتی ہے جب کہ ''عیدگی'' لی جاتی ہے، بلکہ چھینی جاتی ہے، بلکہ ایک خاص فرق یہ بھی ہے کہ ''عیدی'' عید کے دن دی جاتی اور ''عیدگی'' رمضان کے پورے مہینے وصول کی جاتی ہے، ایک لحاظ سے اسے بھی ''فطرانے'' جیسی ایک چیز سمجھ لینا چاہیے اگر نام ہی دینا مقصود ہو تو۔ چونکہ اس میں عوام الناس کے خون کے قطرے جزو اعظم ہوتے ہیں، اس لیے آپ اسے قطرانہ یا قطرینہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

خیر چھوڑیئے بات پھر بگڑ گئی ہے، ہم دراصل آج سنجیدگی سے چاند اور عید وغیرہ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آخر کیوں کے پی کے کے ایک مخصوص علاقے میں چاند نظر آ جاتا ہے اور دوسرے علاقوں میں دکھائی نہیں دیتا، ایک زمانے سے ایسا ہو رہا ہے اور کوئی تدبیر اس مسئلے کو حل نہیں کر پائی، سوال اٹھتا ہے کہ کیا خیبر پختونخوا کے لوگ جھوٹ موٹ کا چاند دیکھ لیتے ہیں جیسا کہ پاکستانی سیاست کے کامیڈین اعظم شیخ رشید نے کہا تھا کہ پٹھان اپنے بیٹے کو دیکھ کر اسے چاند سمجھ کر اورچاند کہہ کر عید منا لیتے ہیں، حالانکہ روزے کے معاملے میں پختون جاہلانہ حد تک سخت ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ اکثر لوگ اسے ایک دینی فریضے کے بجائے ''غیرت'' کا مسئلہ بنا دیتے ہیں اور روزہ کھانا سخت بزدلی سمجھتے ہیں تو پھر آخر آخری ایک روزے سے ان کا کیا بگڑ سکتا ہے۔

بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں روزہ کھانے والے کو قتل کرنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے، پھر چاند دیکھنے کے لیے جو اہتمام کیا جاتا ہے، وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر حکومتی سطح پر موجود نہیں، اکثر لوگوں نے اپنے مکان کی چھتوں پر، منڈیروں میں، گھڑوں اور کوزوں کے ٹوٹے ہوئے ''منہ'' باقاعدہ نصب کر رکھے ہوتے ہیں، اس حساب کتاب کے ساتھ کہ مخصوص مقام پر مخصوص انداز میں کھڑے ہو کر آسمان کا صرف وہ حصہ دیکھا جا سکے جہاں چاند کے طلوع ہونے کا امکان ہو سکتا ہے، خود ہمارے اپنے گھر میں کچھ عرصہ پہلے تک یہ انتظام تھا چنانچہ اس طرح سارے آسمان میں تلاش کرنے کے بجائے صرف وہ مخصوص حصہ دیکھا جا سکتا ہے جس کے اندر چاند ہوتا ہے۔

مسجد قاسم علی خان اور کچھ دوسرے علماء کے پاس جو شہادتیں آتی ہیں، وہ ایسے ہی ماہرین چاند کی ہوتی ہیں، یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ مسجد قاسم علی خان ہی کیوں؟ جو ایک چھوٹی سی مسجد ہے اس کے مقابلے میں مسجد مہابت خان بہت بڑی ہے بلکہ اور بھی بہت سی مساجد ہر لحاظ سے بڑی ہیں لیکن عوام اگر مانتے ہیں تو صرف مسجد قاسم علی خان کے اعلان کو مانتے ہیں اور کسی کے بھی نہیں ۔۔۔ آخر کیوں؟ اور اس کی اپنی ایک وجہ ہے۔ اس مسجد سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کا ریکارڈ اتنا شاندار رہا ہے، مولانا عبدالرحیم پوپلزئی سے عبدالقیوم پوپلزئی تک اس مسجد کے آئمہ اتنے زیادہ محترم رہے ہیں کہ ان کی بات کو ہی سچا مانا جاتا ہے اور ایسا اب بھی ہے، یہ صرف ان بزرگوں کے اپنے اعمال و کردار رہے ہیں جس کے ساتھ خدا کا فضل بھی شامل سمجھئے

یعنی ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

دوسری طرف ہم رویت ہلال کمیٹی کے اراکین اور مفتی منیب الرحمان کے خلوص پر بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ وہ نیک بزرگ ہیں، عالم ہیں، اپنی ذمے داریاں سمجھتے ہیں اور جذبات کے بجائے عالمانہ دیانت سے کام لیتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہ ''مسئلہ'' کیوں ہے اور یہ حل کیوں نہیں ہوتا اور اس کا جواب بھی نہایت ہی آسان اور سیدھا سادا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے چلن ہی کچھ ایسا رہا ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ ڈھونڈنے کے بجائے خواہ مخواہ کی جذباتیت سے کام لیا جاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اٹل اور ناقابل تردید حقائق کو بھی اپنے ذاتی یا گروہی مفادات یا جذبات کے تابع کرنے کی روش ہے، بے شک ہم لوگوں کو تو اپنے جذبات و احساسات، اپنے عقائد و نظریات اور اپنی خواہشات اور مفادات کا تابع کر سکتے ہیں لیکن زمین و آسمان، ارضیات، جغرافیے اور فطری حقائق اپنی مرضی پر نہیں چلا سکتے اور یہ چاند کا مسئلہ ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پر جذباتیت اور ضد کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اب یہ قسمت کی بات ہے یا حالات کی دین ہے کہ پاکستان کو بہت کچھ ایسا ملا ہے جو ناہموار ہے، مختلف نسلوں قوموں اور زبانوں کی وجہ سے یہاں اگر ناہمواری ہے تو جغرافیائی لحاظ سے اتنی ناہمواری ہے کہ ایک طرف سمندری سطح سے متصل زمین ہے تو دوسری طرف سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی اونچائی بھی ہے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کچھ حصوں سے خیبر پختونخوا مجموعی طور پر پانچ ہزار فٹ بلند ہے۔

اب اس بلندی پر رہنے والے یقیناً آسمان کا وہ حصہ دیکھ سکتے ہیں جو نیچے کے لوگوں سے اوجھل ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ چاند دکھائی دینے میں بھی یہی صورت حال ہو گی، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کراچی سے چترال تک دو ہزار کلومیٹر کی لمبائی میں ایک مٹی کی طرح پڑا ہوا ملک ہے اتنے فاصلے میں زمین کی گولائی بھی حائل ہو جاتی ہے اب ان دونوں عوامل یعنی زمین کی گولائی اور اونچائی دونوں کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو بہت زیادہ فرق پڑ جاتا ہے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ پہلے دن کا چاند اتنی زیادہ بلندی پر نہیں ہوتا دکھائی دینے کے آدھے گھنٹے بعد ہی وہ غروب ہو جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اتنی کم بلندی پر نظر آنے والے چاند کو ہموار زمینوں سے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن پہاڑی اور بلند سطح سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک اور بات سے یہ بلندی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے، ارضیات کے مطابق آج سے چالیس کروڑ سال پہلے ایشیاء اور ہندوستان دو الگ الگ براعظم تھے پھر ایک عظیم الشان موومنٹ ہوئی جس نے ہند کے جزیرے یا براعظم کو زبردست طاقت کے ساتھ ایشیاء کے ساتھ ٹکرایا جس مقام پر یہ ٹکراؤ ہوا وہاں کی زمین اوپر اٹھ کر اس پہاڑی ہلال کی صورت میں ابھری جو برما کی سرحد پر دریائے برہم پترا سے شروع ہو کر ایران تک چلا گیا ہے جس میں ہمالیہ ہندو کش، قراقرم، تیان شان، جبل السراج، پامیرو پامینررس اور کوہ بابا کے سلسلے شامل ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں اس پہاڑی ابھار کے علاوہ اردگرد کی ساری سطح اونچی ہو گئی جس میں پامیر تو اتنا اونچا ہے کہ ''بام دنیا'' کہلاتا ہے، اب ان سارے عوامل کو دھیان میں رکھ کر کرہ ارض کا ایک گول دائرہ بنایئے، اس دائرے سے اوپر چاند بنائیے اور پھر دیکھئے کہ دنیا کے مختلف حصوں سے چاند کس کس زاویئے پر پڑتا ہے، خیبر پختونخوا میں پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر کھڑا ہوا شخص آسمان کا جو حصہ دیکھ سکتا ہے وہ حصہ ہموار میدانی علاقوں میں کھڑا ہوا آدمی ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔

یہ حقیقت بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ دریائے سندھ تک کا علاقہ پاکستان میں ہونے کے باوجود ''مون سون'' کے خطے میں نہیں آتا بلکہ ایشیاء کی طرح بحیرہ روم کے خطے میں آتا ہے اور اس لیے آتا ہے کہ یہ خطہ مختلف ہے، ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اگر غور کیا جائے تو پاکستان میں دو عیدیں ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ عین فطری ہے، جہاں تک اتحاد و یک جہتی کا تعلق ہے تو کیا جن ممالک میں عیدیں ہمارے ہاں سے مختلف دنوں میں منائی جاتی ہیں وہ اسلامی اتحاد سے الگ ہو گئے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔