
انھوں نے جج صاحبان کی جانب سے سچ بولنے کے اصرار پر کہا کہ پولیس جب جرائم پیشہ افراد کے خلاف سرگرم ہوتی ہے تو پولیس کو کہیں سے مدد نہیں ملتی ، بلوچ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو لیاری سے خواتین اور بچے پولیس کے لیے مزاحمت کار ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ کچھی رابطہ کونسل، سنی تحریک اور ایم کیو ایم کے لڑکوں کو پکڑا جاتا ہے تو پورے شہر میں امن وامان کی صورتحال بگڑ جاتی ہے، ملزمان کی ہلاکت پر عدالتوں کی جانب سے نوٹس اور میڈیا کی جانب سے تنقید ہوتی ہے، انھوں نے کہا کہ پولیس میں تبادلے اور تقرریاں میرٹ پر ہونی چاہئیں۔

آپریشن کے بعد پولیس اہلکاروں کو جب قتل کردیا جاتا ہے تو نہ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی مدد ملتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے، ایک شہید پولیس اہلکار کے اہل خانہ کو 20لاکھ روپے دے کر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے،انھوں نے کہاکہ 1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسران واہلکاروں کو چن چن کرماردیا گیا ، جس کا خوف آج بھی پولیس پرطاری ہے، اس صورتحال میں عدالت کے سامنے اؑعتراف کرتا ہوں کہ میں کوئی نتائج نہیں دے سکتا ، دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کو چھوڑیں بس آپ سچ بولیں ،ہمیں دیکھنا ہے کہ یہاں سرکار ہے بھی یا نہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔