پبلک ٹرانسپورٹ کا فرسودہ نظام بسیں مختص نہ ہونے سے لاکھوں مسافر خواتین کو مشکلات کا سامنا

پبلک ٹرانسپورٹ میں روزانہ 12 لاکھ خواتین شہر میں سفرکرتی ہیں، 13 ہزار بسوں میں خواتین کیلیے صرف1 لاکھ 30 ہزار سیٹیں۔۔۔


Staff Reporter/عامر خان November 09, 2013
کنڈیکٹر صبح کے اوقات میں گاڑیوں میں نہیں بٹھاتے، ورکنگ خواتین فوٹو: ایکسپریس / فائل

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام فرسودہ اور سرکلر ریلوے بند ہونے کے باعث ورکنگ ( نوکری پیشہ اور مختلف شعبوںمیں کام کرنے والی) خواتین، طالبات اور گھریلو خواتین کو آمد ورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں روزانہ 12 لاکھ سے زائد خواتین سفر کرتی ہیں، 13 ہزار سے زائد بسوں ، منی بسوں اورکوچوں میں خواتین کیلیے1 لاکھ 30 ہزار سیٹیں مختص ہیں،ایکسپریس کے سروے کے مطابق کراچی میں 13 ہزار بسیں ، منی بسیں اور کوچز شہر کے 100 روٹس پر چل رہی ہیں، ان گاڑیوں میں خواتین کے لیے علیحدہ کمپارٹمنٹ ہوتا ہے، ہر کمپارٹمنٹ میں خواتین کے لیے 8 سے 10 سیٹیں مختص ہوتی ہیں، نیشنل ورکرز فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور کے مطابق کراچی میں ورکنگ خواتین کی تعداد 15 سے18 لاکھ ہے، ٹرانسپورٹ نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں اصلاحات کی جائے ، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کیلیے مخصوص سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ خواتین کے لیے مختص کمپارٹمنٹ میں مرد مسافروں کے داخلے اور ان کے بیٹھنے پر پابندی عائد کی جائے، خواتین کے لیے علیحدہ بسیں چلائی جائیں، خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ نظام کے حوالے سے اسمبلی میں قانون سازی کی جائے ،ایکسپریس کے سروے کے دوران اس مسئلے کے حوالے سے مختلف ورکنگ خواتین سے گفتگو کی گئی ،لیاقت آباد میں واقع ایک گرلز سیکنڈری اسکول کی سینئر ٹیچر رابعہ بیگ نے بتایا کہ مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو سخت دشواری اور مسائل کا سامنا ہے، سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب میں صبح اپنی گھریلو ذمہ داری کی انجام دہی کے بعد اپنی ڈیوٹی پر جانے کیلیے نکلتی ہوں تو مسائل کا آغاز شروع ہو جاتا ہے ، سب سے پہلے تو بس اسٹاپ پر رش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، بسوں اور منی بسوں میں رش کے باعث مرد مسافر زیادہ ہوتے ہیں اور وہ خواتین کے کمپارٹمنٹ میں آکر سیٹوں پر بیٹھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان گاڑیوں کے کنڈیکٹرز خواتین کو صبح کے اوقات میں نہیں بیٹھاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اگر خواتین بسوں میں موجود بھی ہوتی ہیں تو سیٹیں کم ہونے کی وجہ سے وہ کھڑے ہوکر سفر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ،ایک نجی گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والی خاتون ورکر ندا انجم نے بتایا کہ کراچی میں خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

بسوں، منی بسوں اور کوچوں میں خواتین اور مردوں کے حصوں کے درمیان جو لوہے کی گرل لگائی جاتی تھی وہ ٹرانسپورٹ مافیا نے منافع خوری کے چکر میں ہٹا دی ہیں ،منتخب نمائندے مسائل حل کریں، سرکاری کالج کی طالبہ حمیرا افتخار نے بتایا کہ خواتین خصوصاً طالبات کو بسوں اور منی بسوں میں سفر کے دوران بہت مشکلات ہوتی ہیں، مرد مسافروں کی بڑی تعداد دانستہ طور پر خواتین کے کمپارٹمنٹ میں لگے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے، کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام ناکارہ ہوچکا ہے اور تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے، انھوں نے بتایا کہ 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں اس سے زیادہ حیرت انگیز بات کیا ہو گی کہ صرف یہاں 13 ہزار بسیں، منی بسیں کوچیں چل رہی ہیں، کراچی میں اس وقت 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔



اگر حکومت آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے تو ہم ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں، سروے کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی کہ سائٹ ایریا ، نارتھ کراچی، کورنگی اور فیڈرل بی ایریا کے صنعتی علاقوں میں مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو آمد ورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شام کے اوقات میں اپنے گھروں پر واپسی کے دوران انھیں بسیں، منی بسیں اور کوچز نہیں مل پاتی ہیں اور وہ کافی دیر تک بس اسٹاپوں پر گاڑیو ں کے انتظار میں کھڑی رہتی ہیں،عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر منہازالرحمن نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ مافیا اور حکومت کی ملی بھگت سے کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولیات مہیا نہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خواتین کیلیے علیحدہ بسیں چلائی جاتیں۔

ورکنگ خواتین ،طالبات اور گھریلو خواتین کی بڑی تعداد اب چنگ چی رکشوں اور 6 سے 11 سیٹر رکشوں پر سفر کرنے کو ترجیح دینے لگی ہے، سروے کے دوران یہ بات دیکھنے میں آئی کہ خواتین ان رکشوں میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں اور گروپ کی شکل میں سفر کرنا پسند کرتی ہیں ،اس حوالے سے چنگ چی رکشہ ایسوسی ایشن کے ترجمان ابرار حسین کا کہنا ہے کہ کراچی میں 23000 چنگ چی رکشے اور 6000 سے زائد 9 سے 11 سیٹر سی این جی رکشے چل رہے ہیں اور ان رکشوں کی بڑی تعداد سائٹ، اورنگی، نیو کراچی، لیاقت آباد ،کورنگی سمیت دیگر علاقوں کے مختلف روٹس پر چل رہی ہے اور ان رکشوں کے مسافروں میں 60 فیصد سے زائد تعداد خواتین کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں