ارفع کریم رندھاوا کی یاد میں
ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں ہیں کہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے
14جنوری کو دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر کا اعزاز حاصل کرنے والی ارفع کریم رندھاوا کی دوسری برسی منائی گئی۔ اس موقعے پر ارفع کریم کی والدہ سمینہ امجد نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے منعقدہ خصوصی تقریب اور اسکول طلباء کے لیے فیری سروس کے افتتاح کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیم کے شعبے میں انقلاب اور دیہی علاقوں میں علم کی روشنی پھیلانا ارفع کریم کا خواب تھا۔ ارفع کریم فاؤنڈیشن اس خواب کو حقیقت بنانے میں کوشاں ہے، انھوں نے کہا کہ ارفع کریم نے انٹرنیشنل فورم پر پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی بہتری اور شعور اجاگر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ذریعہ بنا کر ملک میں تعلیم عام کرنے کی خواہش مند تھی۔
انھوں نے ارفع کریم کی یاد میں کراچی پورٹ کی جانب سے تقریب کے انعقاد کو سراہا'' کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں، ارفع کریم رندھاوا نے بھی جب دو سال قبل اس جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کیا تو وہ نہ صرف وطن عزیز بلکہ دنیا کی تاریخ میں بحیثیت دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی انجینئر کے بڑا نام پیدا کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید ہو گئی تھی۔ صرف نو سال کی کم عمری جس میں عام بچے کھیل کود میں مصروف و مشغول ہوتے ہیں، کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر نہ صرف اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں مرکوز کیں بلکہ انتہائی قابلیت و مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہم عصر طلبہ کو پیچھے چھوڑتے اور بازی لے جاتے ہوئے دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا اور پوری دنیا میں اپنا سکہ منوایا۔ نہ صرف اپنا اور اپنے والدین و اہل خانہ کا بلکہ ملک و قوم کا نام بھی خوب روشن کیا اور پاکستان و اہل پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا، سولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ارفع نے وہ شہرت حاصل کر لی جو کسی دوسرے کو ساری زندگی بھی نصیب نہیں ہوتی۔
ارفع کریم رندھاوا 2 فروری 1995ء کو صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے ایک گاؤں رمدے میں پیدا ہوئیں، تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا اور اپنی زندگی کی پہلی دہائی مکمل کرنے سے قبل ہی 2004ء میں دنیا کی سب سے کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے پوری دنیا میں مقبولیت کی معراج حاصل کر لی، مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی دعوت پر جولائی 2005ء میں ارفع کریم اپنے والد کے ہمراہ امریکا گئی۔ جہاں مائیکرو سافٹ کے چیئرمین بل گیٹس نے انھیں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند عطا کی۔ ارفع نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے کمپیوٹر کی دنیا میں وہ نام کمایا اور ایسا عالیشان عبور حاصل کیا کہ جس کے بدولت انتہائی کم عمری میں انھیں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسی عظیم شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بل گیٹس جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر اس کے دس ہزار ڈالر زمین پر گر جائیں تو وہ انھیں اس لیے نہیں اٹھا کہ جتنا وقت وہ ان ڈالرزکو اٹھانے میں صرف کرے گا اتنے وقت میں وہ ان ڈالرز سے کہیں زیادہ کما لیگا ۔ اس مصروف ترین شخصیت نے کہ جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ہوتا، ارفع کریم سے دس منٹ کی خصوصیت ملاقات کی اور ارفع کریم کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، جو یقیناً نہ صرف ارفع کریم اور اس کے والدین بلکہ پورے پاکستان کے لیے بڑے اعزاز و فخر کی بات تھی۔
اس ملاقات میں ارفع کو بل گیٹس کے ساتھ ناشتے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ 2006ء میں ارفع کو دوبارہ مائیکرو سافٹ کے ہیڈ کوارٹر میں جانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ صرف دس سال کی عمر میں انھوں نے پرائڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا جس کے حصول کے لیے لوگ ساری ساری عمر گزار دیتے ہیں، ارفع کریم نعت خوانی اور بحث و مباحثہ جیسے اہم شعبوں میں بھی کسی سے کم نہ تھیں، ان شعبوں میں بھی بے مثال صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں صدارتی ایوارڈ، مادر ملت جناح طلائی تمغے اور سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ 2005ء سے بھی نوازا گیا۔ نومبر 2006ء میں ارفع کریم نے مائیکرو سافٹ کے زیر اہتمام بارسیلونا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی اور وطن عزیز کا نام خوب روشن کیا، اس کم عمر گوہر نایاب سے اگر زندگی وفا کرتی تو نامعلوم وہ اور کتنے ہی کارنامے سرانجام دیتی اور کتنے ہی اعزازات اس کا اور اس ملک و قوم کا مقدر بنتے۔
ارفع کریم فخر ملک و قوم تھیں، وہ 2012ء میں 26 دن تک کومے میں رہنے کے بعد 14جنوری بروز ہفتہ کو لاہور کے سی ایم ایچ اسپتال میں اﷲ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ 14 جنوری کی شب تقریباً9 بج کر 50 منٹ پر اچانک ارفع کریم کی افسوسناک موت کی خبر نے پوری قوم کو صدمے سے نڈھال کر دیا، 22 دسمبر 2011ء کو ارفع کریم اپنے گھر میں تھی کہ اچانک مِرگی کا دورہ پڑا، انھیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا اس دوران انھیں اچانک دل کی تکلیف بھی لاحق ہو گئی اور وہ کومے میں چلی گئیں۔ 2 جنوری کو بل گیٹس نے ارفع کے خصوصی علاج کے لیے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان کے والدین سے رابطہ کیا اور امریکی ڈاکٹروں کا ایک پینل بنایا جو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پاکستانی ڈاکٹروں کو اپنے مشورے دے رہا تھا۔ بل گیٹس نے ڈاکٹرز کو ہدایات کی کہ ارفع کریم کے علاج و معالجے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے اور ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ چنانچہ ان ڈاکٹروں نے سر توڑ کوشش کی کہ ارفع کی زندگی کو بچایا جا سکے۔ 9 جنوری کو ارفع کی حالت میں قدرے بہتری کے آثار نمودار ہوئے تاہم عارضی ثابت ہوئے، پھر وہی ہوا جو اﷲ کو منظور تھا اور فرشتہ اجل نے مزید مہلت نہ دی، کومے کے دوران ارفع کریم کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا اور بالآخر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ عدم سے وجود اور وجود سے پھر عدم ہی اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور موت کے آگے انسان بے بس ہے۔ دنیا میں جتنے بھی متنفس اور ذی روح ہیں سب نے بالآخر فنا ہونا اور اپنے رب کی طرف پلٹ جانا ہے۔ ارفع بھی رب کے پاس چلی گئی لیکن مائیکرو سافٹ کی تاریخ پر ان منٹ نقوش چھوڑ گئی۔
مائیکرو سافٹ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے علوم پر ارفع کریم نے جو حیرت انگیز دسترس حاصل کی تھی انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حکومت نے بعد از مرگ لاہور کا آئی ٹی پارک اور کراچی کا آئی ٹی سینٹر ارفع کریم کے نام سے منسوب کر دیا۔
یہ ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں ہی ہیں کہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ پورا عالم اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے اور مغرب کا محتاج ہے۔ 57 اسلامی ممالک اور آبادی، دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی، افرادی قوت کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی بے بہا دولت سے ہم سرشار و مالا مال ہیں تاہم آج پوری مسلم امہ ایسے قابل حکمران سے محروم ہے جو اس افرادی طاقت اور قدرتی عطیات و وسائل کا درست سمت میں استعمال کرتے ہوئے ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ ممالک و اقوام کی صف میں لا کھڑا کرے، پچھلے زمانے میں بادشاہ و حکمران علماء و فضلاء کی قدر افزائی کرتے، ان سے مشاورت کر کے فائدہ اٹھائے، اپنے دربار میں خاص جگہ دیتے اور اہم عہدوں پر فائز کرتے، آپ دیکھیے بنو عباس میں عہد ہارون الرشید، مسلمانوں نے سائنس و ٹیکنالوجی اور علوم و فنون کے میدان میں کیسے کیسے کارہائے نمایاں انجام دیے اور مسلم امہ کی علمی و ادبی اور سائنسی ترقی کس عروج پر تھی ایک وہ دور تھا اور ایک آج کا دور ہے کہ جب حکمران علماء و فضلاء سے بہت دور رہتے اور مزید دور ہوتے چلے جا رہے ہیں چنانچہ پھر نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے، آج پورا عالم اسلام، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندہ اور حسرت و یاس کی تصویر ہے اور کامیابی، ترقی اور عروج ہمیں منہ چڑا رہے ہیں اور ہم مغرب کے غلام ہیں۔ ایسے موقع پر ارفع جیسی جوہر قابل اور گوہر نایاب کی کمی شدت سے محسوس ہوتی اور بڑی یاد آتی ہے، خاص طور پر ان کی برسی آبدیدہ کر دیتی ہے۔