میثاق جمہوریت کے ثمرات

سیاسی دانش کاسفر جو 2005 میں شروع ہوا تھا وہ 2013 کے انتخابات کے بعد بھی جاری ہے۔۔


Zahida Hina February 25, 2014
[email protected]

گزشتہ دنوں میثاق جمہوریت کی تاریخی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ اس عہد نامے نے پاکستانی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی جس کا تفصیلی تذکرہ نہ کرنے سے یہ موضوع یقیناًتشنہ رہ جائے گا۔ اس حوالے مجھے 2007 کے وہ دو کالم یاد آئے جو میں نے لندن سے لکھے تھے۔ میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دستخطوں سے پہلے ملک میں مارشل لا لگانے والی طاقتوں کے پاس ہمیشہ یہ اختیار موجود رہتا تھا کہ جب آمریت کا دور طویل ہوجائے، جعلی معاشی خوش حالی کا غبارہ پھٹنے کے قریب ہو اور عوام میں بے اطمینانی انتہا کو پہنچنے لگے تو اقتدار سے محروم کی جانے والی سیاسی جماعت کی حریف دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ معاملات طے کر کے عارضی طور پر سول حکومت کو اس طور بحال کیا جائے کہ اس کے پاس اقتدار تو ہو لیکن اختیار نہ ہواور پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد دوسری حریف جماعت کو استعمال کر کے جمہوریت کی بساط لپٹ دی جائے تاکہ جمہوری تسلسل جاری نہ رہ سکے، منتخب حکومتیں یکسوئی سے کام نہ کرپائیں، عوام ان سے بے زار ہونے لگیں اور مناسب وقت پر ایک مرتبہ پھر ماورائے آئین اقدام کر کے ملک پر آمریت مسلط کردی جائے۔ میثاق جمہوریت سے یہ بنیادی تبدیلی رونماہوئی کہ اس کے تحت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز نے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے، حصول اقتدار کے لیے فوج کی مدد یا پیش کش کو قبول نہ کرنے کا عہد کیا تھا لہٰذا جمہوری عمل کو ختم کرنے والی قوتوں نے ایسے سیاسی گروہوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا جو بیک وقت دونوں جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو بدترین تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنائیں۔ اس ماحول میں 2008 کے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ نواز شریف اوربے نظیر بھٹو پر تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی پابندی عائد تھی۔ ان دونوں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، اس کے ساتھ ہی ان کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلاف رائے پیدا کرنے کا ایک منصوبہ بھی تیار کیا گیا۔

6 اگست 2007 کو میں نے اسی صورت حال کے بارے میں لکھا تھا کہ بے نظیر بھٹو اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہیں۔ انھوں نے جمہوریت' آزادی اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔انھوں نے اور میاں نوازشریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے تو دراصل پاکستانی عوام سے یہ پیمان وفا باندھا تھا کہ دونوں مل کر آمریت کے خلاف جدوجہد کریں گے اوراسے شکست دیں گے ۔ 2006 میں جب انھوں نے میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کیے تھے تو ان لوگوں سے بھی داد لی تھی جو ان کے مخالف تھے اور اسی لیے ان کے خلاف بولتی ہوئی بہت سی زبانیں بند ہوگئی تھیں۔ میثاق جمہوریت پتھرپر کندہ ایک دستاویز تھی جس پر انھوں نے اپنا نام لکھا تھا اور اب جب کہ وہ مفاہمت کررہی ہیں تو وہ بہتے ہوئے پانی پر اپنی مہر ثبت کررہی ہیں بعد میں مجھ ایسے کئی لوگوں کو یہ بات ماننی پڑی کہ پرویز مشرف سے سمجھوتہ کر کے بی بی پاکستان واپس آئیں تو یہ ان کی سیاسی بصیرت تھی جس نے مجھ ایسے مثالیت پسند بہت سے لوگوں کو مایوس کیا تھا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بے نظیر بھٹو کی اسی سیاسی ذہانت کے سبب نومبر2007 میں نواز شریف بھی پاکستان واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرائے گئے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر اٹل ہوجائیں، اس طرح پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان مفاہمت کا خاتمہ ہوجائے اور دونوں جماعتوں کے درمیان روایتی دشمنی دوبارہ سر اٹھائے جس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت کی دستاویز کے پرزے اڑ جائیں ۔یہ بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف کا پہلا امتحان تھا کہ وہ عہد نامے کا پاس رکھتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یا ممکنہ اقتدار کے لالچ میں ماضی کی طرح غیر جمہوری طاقتوں کا آلۂ کار بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو داد ملنی چاہیے کہ انھوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں سیاسی میدان خالی نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ تعریف میاں صاحب کی بھی ہونی چاہیے کہ انھوں نے اس صائب مشورے کو قبول کرنے میںذرا برابر تامل نہیں کیا۔ دونوں اپنے پہلے امتحان میں پورا اترے اور دونوں نے 10 دسمبر 2007 کو انتخابات میں حصہ لینے کا حتمی اعلان کیا۔

سیاسی اور انتخابی دنگل میں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے اترنے کا مطلب جنرل پرویزمشرف کے حامیوں کا مکمل صفایا تھا۔ 10 دسمبر 2007 کو دونوں رہنماؤں نے انتخابات میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا اور اس کے صرف 17 دن بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نہایت نہایت الم ناک سانحہ رونما ہوا۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے فوراً بعد شہید کردی گئیں۔ اس سانحے سے ذرا پہلے بے نظیر بھٹو کو بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کے قافلے پر حملہ کیا گیا ہے جس میں کئی سیاسی کارکن شہید ہوئے ہیں۔ انھوں نے فوراً نواز شریف کو فون کیا، یہ شہادت سے قبل ان کا کسی بھی فرد سے آخری رابطہ تھا۔ ان کی شہادت سے پورے ملک میں کہرام بپا ہوگیا۔ نواز شریف سب سے پہلے اسپتال پہنچے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، انھوں نے بے نظیر شہید کے مشن اور جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر پیپلز پارٹی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کر لے گی تو مسلم لیگ بھی اس کا ساتھ دے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیرپرسن بنانے کا اعلان ہوا اور آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرپرسن مقرر ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ ملک کو مکمل خانہ جنگی سے بچانے کے لیے مجوزہ عام انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔ 18 فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں دونوں جماعتوں نے حصہ لیا نتائج سامنے آئے تو فوجی آمر کی حامی جماعتوں کا صفایا ہوگیا۔ پیپلز پارٹی واحد سب سے بڑی جماعت جب کہ مسلم لیگ نواز دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ پی پی پی کو اگرچہ ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی تاہم مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہونے کے بعد اسے اقتدار میں آنے کے لیے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ انتقال اقتدار کے تمام مراحل بخوبی طے پاگئے۔ ابتدائی مہینوں میں مسلم لیگ نواز بھی شریک اقتدار رہی لیکن بعدازاں اس نے اقتدار سے الگ ہوکر ایک ذمے دار حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ غیر جمہوری طاقتیں اپنی من پسند حزب اختلاف کے ذریعے جمہوری عمل میں رخنہ پیدا نہ کر پائیں۔

2008 سے لے کر 2013تک کے پورے دور میں، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اس امر پر اتفاق رہا کہ جمہوری عمل کے دوران میثاق جمہوریت کی روح پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا، عوام کے مینڈیٹ کا احترام ہوگا اور غیر آئینی طریقے سے منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوئی سازش یا کوشش نہیں کی جائے گی۔ کئی حلقوں کی جانب سے اشتعال انگیزیوں کے باوجود نواز شریف نے مرکز میں قائم پی پی پی کی حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت ایوان میں سادہ اکثریت سے محروم ہوچکی تھی لیکن مسلم لیگ کی حمایت کے اعلان کے بعد روٹھے اتحادی کو حکومت میں واپس آنا پڑا۔ پنجاب حکومت کو ہٹانے کی مہم جوئی کو ناکام بنایا گیا اور بعد ازاں ایسی کسی بھی ممکنہ سازش پر کڑی نظر رکھی گئی۔ ذمے دار حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کے سبب مسلم لیگ پر ''مک مکا''کرنے اور فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات لگائے گئے۔ الزامات لگانے والوں میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سب سے آگے تھیں جنھیں اصل غصہ اس بات پر تھا کہ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کیوں کیا؟ 2008 کے عام انتخابات میں حصہ کیوں لیا؟ اور پیپلز پارٹی کی نسبتاً کم زور مخلوط حکومت کو ہٹانے کے لیے احتجاج، جلسوں اور جلوسوں کا راستہ اختیار کیوںنہ کیا؟ اس دوران دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی شقوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے آئین میں ترامیم لانے اورمطلوبہ قانون سازی میں بھی مکمل تعاون کیا جس کے نتیجے میں میں 18 ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا ممکن ہوسکا۔ اس ترمیم کے ذریعے ''میثاق جمہوریت'' میں کیے گئے کئی اہم ترین وعدوں کو پورا کیا گیا۔ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے اس بل پر 19 اپریل 2010 کو دستخط کیے۔ تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جس ملک میں بندوق کی نوک پر اقتدار پر قبضہ کیا جاتا رہا ہے وہاں ایک منتخب صدر نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو رضا کارانہ طور پر تفویض کردیے۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے 1973 کا آئین بڑی حد تک بحال کیا گیا بلکہ اس میں انقلابی تبدیلیاں بھی عمل میں آئیں۔

سیاسی دانش کاسفر جو 2005 میں شروع ہوا تھا وہ 2013 کے انتخابات کے بعد بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ نواز حکومت، تمام فریقوں کے مینڈیٹ کے احترام، آئین و قانون کی بالادستی، سیاسی محاذ آرائی سے گریز اور جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاسی دانش کا یہ تاریخی سفر مستقبل میں کئی اہم سنگ میل عبور کر لے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں