قیام امن کے لیے نیکٹا اب رزلٹ دے

طالبان قیادت سے مذاکرات کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کے صبر آزما مرحلہ میں ہے


Editorial March 19, 2014
ملکی معاملات اپنی نوعیت کے انتہائی غیر معمولی برمودا ٹرائینگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ فوٹو: پی پی آئی/فائل

وزیراعظم نوازشریف نے ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتربنانے کے لیے انسداد دہشتگردی کے قومی ادارے 'نیکٹا' کے ماتحت نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ اور قومی، صوبائی سطح پر ریپڈ رسپانس فورسزکے جلد قیام کی منظوری دے دی ہے۔ منگل کو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں انھوں نے صوبوں کو اس مقصدکے لیے وفاق کی جانب سے فنڈزکی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار،وزیرسائنس وٹیکنالوجی زاہد حامد اورڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔

ملک کو درپیش مختلف چیلنجز سے نمٹنے اور سلامتی کے اہم اہداف کے حصول کے لیے وزیراعظم نے جن اقدامات کی منظوری دی ہے وہ نہ صرف بروقت اور ناگزیر ہیں بلکہ قومی یکجہتی، داخلی سلامتی ، جمہوری عمل کے تسلسل اور اقتصادی و سماجی استحکام کو یقینی بنانے کی طرف اہم پیش رفت بھی ہے ۔ ملک اس وقت امن کی تلاش میں امکانات و خطرات کے گرداب سے نکل کر طالبان قیادت سے مذاکرات کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کے صبر آزما مرحلہ میں ہے، ملکی معاملات اپنی نوعیت کے انتہائی غیر معمولی برمودا ٹرائینگل میں پھنسے ہوئے ہیں، قانون سازی اور امن و امان کی بحالی کے لیے ریپڈ فورس کی تعیناتی اور آلات کی فراہمی حالات کی بہتری کی سمت ٹھوس پیش قدمی ہے مگر اصل ٹاسک ملکی قوانین پر عملدرآمد ، آلات کے استعمال اور سیکیورٹی فورسز کو ملنے والی شفاف و بروقت انٹیلی جنس شیئرنگ ہے جس کے بغیر بد امنی میں ملوث عناصر کے خلاف فیصلہ کن پیشگی حملہ کی تدابیر میں کوئی بریک تھرو دیکھنے میں نہیں آ سکے گا ۔ہوتا یہ آیا ہے کہ الم ناک وارداتیں ہوتی ہیں اور فورسز کی پر شور کارروائیاں بعد میں شروع ہوتی ہیں جب کہ اپر ہینڈ ہماری فورسز کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ ارباب اختیار کو دستیاب وسائل اور بد امنی کے خاتمہ کے لیے جدید ترین آلات و عملی میکنزم کی آج جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔اس تناظر میں وزیراعظم کو محکمہ شہری دفاع کی جانب سے صوبوں کے حوالے کیے جانے والے انسداد دہشتگردی آلات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ اہمیت کی حامل ہے جس میں بتایا گیا کہ آیندہ دوماہ تک 4روبوٹ بھی حکومت کو مل جائیں گے۔

وزیراعظم نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو بم ڈسپوزل وہیکل کے کاغذات اورچابیاں حوالے کیں ، مجموعی طور پر65جدید گاڑیاں صوبوں کو دی جائیں گی جب کہ دیگر آلات میں بم ڈسپوزل سوٹ ، رات کو دیکھنے والے آلات، جامرز، بم ناکام بنانے کے لیے خصوصی طور پر باہر سے منگوائے گئے ڈرم بھی شامل ہیں جس کے بعد مختلف محکموں کے مابین نتیجہ خیز رابطہ مستحکم ہوسکتا ہے ۔ نیشنل جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے نام سے اگرچہ نیا ادارہ بنا کر مسئلہ کسی حد تک حل کرلیا گیا مگراس کا کنٹرول اور سربراہی عسکری قیادت کے پاس رہے گی یا سول قیادت کے ہاتھوں میں اس کا فیصلہ بھی جلد ہونا چاہیے، اسی طرح چاروں صوبوں، وفاق اور فوجی قیادت نے نئی داخلی پالیسی پر مکمل اتفاق رائے کا اظہار کیا تاہم تحفظ پاکستان آرڈیننس کے حوالے سے بعض سیاسی رہنماؤں اور صوبوں کے اعتراضات کا ہنگامی بنیادوں پر جائزہ لینے کے لیے وفاقی وزیر زاہد حامد کو جو ہدایات جاری کی گئیں ان کا نتیجہ بین الصوبائی اتفاق رائے اور قومی امنگوں کے مطابق ہونا لازم ہے، وزرائے اعلیٰ کا فرض ہے کہ وہ سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کو جلدکیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس میں دی گئی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی راہ ہموار کریں، وڈیو لنک کے ذریعے شہادتوں کو قابل قبول بنائے جانے کی سہولت کو دہشت گردی کے دی اینڈ کا نکتہ آغاز بنانے کی کوشش کی جائے، مجرموں کو سزا ملنی چاہیے، اس ضمن میں سنگین مقدمات میں عدالتوں اور عدالتی کارروائی کو دوسرے صوبوں میں منتقلی کے پراسیس کا کماحقہ جائزہ لیا جائے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستی رٹ کے قیام اور دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کا وقت آگیا ہے۔ملکی سالمیت ، خارجہ پالیسی اور داخلی سیاسی کشمکش سے پیدا شدہ صورتحال پر ملک کے اندر اور باہر افسوس ناک شعلہ بیانی کے مظاہرے ہو رہے ہیں، پاکستان پر مختلف حیلے بہانوں سے دباؤ بڑھایا جارہا ہے اس لیے قومی سلامتی کے امور کی انجام دہی میں احتیاط اور دور اندیشی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے ۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے میڈیا کو بتایا کہ چاروں صوبوں، وفاق اور فوجی قیادت نے نئی قومی سلامتی کی داخلی پالیسی پر مکمل اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔ خفیہ معلومات کا صوبوں، سول آرمڈ فورسز کے ساتھ تبادلہ کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نے آئین کے اندرطالبان سے مذاکرات کرنے کا عزم دہراتے اور مذاکرات میں پیشرفت پراطمینان کا اظہار کرتے ہوئے درست طور پر کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی مخالفت کرنے والے گروہوں سے خود نمٹنا چاہیے ۔ادھر اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب میں6 جیلوں کو ہائی سیکیورٹی جیل قرار دینے اور دہشتگردی کے مقدمات کے لیے اسلام آباد سمیت4 ریجنل ہیڈکوارٹرز قائم کرنے کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں گے، فوجی آپریشن سے فریقوں کو نقصان ہو گا ، ان کا انتباہ قابل غور ہے کہ کچھ قوتیں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتی ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ بلاشبہ مذاکرات کے سلسلے میں جگہ کا تعین کیا جارہا ہے، اس ضمن میں پیس زون قائم کرنے کی بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے، یہ عملی دشواریاں ہیں تاہم بات چیت کو کسی بند گلی میں نہیں جانا چاہیے۔

اس سارے عمل میں خطے کی تزویراتی حرکیات ، طالبان سے بات چیت کے نتائج کے فال آؤٹ کو پیش نظر رکھا جائے جب کہ افغانستان میں آیندہ چند ماہ میں ہونے والے واقعات اور امریکی فوج کے انخلا سے پیدا ہونی والی صورتحال کے گہرے ادراک کی ضرورت ہوگی کیونکہ برطانیہ نے افغانستان سے انخلا کے پیش نظر 2کے سوا تمام 137فوجی کیمپ افغان نیشنل آرمی کے حوالے کر دیے ۔ برطانوی فوج رواں سال کے آخر تک افغانستان سے نکل جائے گی۔ ادھر سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے مینڈیٹ میں مزید ایک سال کی توسیع کی منظوری دے دی۔ اقوام متحدہ کے لیے افغانستان کے سفیر ظاہر طنین نے کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ افغانستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار خطے میں امن و استحکام کے لیے کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لائیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں