حامد کرزئی کی پاکستان کے خلاف بیان بازی

افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے خلاف اپنے روایتی بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے


Editorial March 31, 2014
افغانستان میں الیکشن کمیشن اور غیر ملکیوں کے زیر استعمال گیسٹ ہاؤس پر حملوں میں پاکستانی خفیہ ایجنسی ملوث ہے، حامد کرزئی فوٹو:ُفائل

افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے خلاف اپنے روایتی بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اگلے روز افغانستان میں الیکشن کمیشن اور غیر ملکیوں کے زیر استعمال گیسٹ ہاؤس پر حملوں میں پاکستانی خفیہ ایجنسی ملوث ہے' افغان طالبان ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی مداخلت کے باعث مذاکرات کا انعقاد ممکن نہیں ہو رہا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ٹیلی فونک بات چیت میں الزام عائد کرتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا کہ پاکستان اب بھی سابق طالبان حکومت کا حامی ہے اور جنگ جوؤں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔

حامد کرزئی کے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں' افغانستان میں جب بھی کوئی بدامنی کا واقعہ رونما ہوا' حامد کرزئی کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ بلا تحقیق اس کا الزام پاکستان پر دھرتے رہے ہیں۔ حامد کرزئی کا رویہ پاکستان کے ساتھ متعصبانہ اور بھارت کے ساتھ دوستانہ رہا ہے' انھوں نے ہر موقعے پر بھارت کے موقف کی حمایت کی حتٰی کہ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ صدر حامد کرزئی کی پالیسی کے جواب میں پاکستان نے مشتعل ہونے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ہر مسئلہ پر تعاون کا یقین دلایا۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں پاکستان نے حامد کرزئی کی بھرپور مدد کی جس کی بنا پر انھوں نے صدارتی الیکشن جیتا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حامد کرزئی پاکستان کے شکر گزار ہوتے اور دو برادر مسلم ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے مگر انھوں نے اس کے برعکس معاندانہ رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کے خلاف بیانات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب جب افغانستان میں صدارتی الیکشن قریب آ رہے ہیں اور حامد کرزئی اس مہم سے باہر ہو چکے ہیں اور مستقبل میں حکومت میں ان کا بااثر کردار ختم ہو رہا ہے تو ایسے میں انھوں نے پاکستان کے خلاف بیان بازی میں تیزی پیدا کر دی اور ان کا رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ افغان صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق صدر کرزئی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ٹیلی فون پر پاکستان کی شکایت لگائی کہ افغان طالبان کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے میں پاکستان رکاوٹ ہے۔

ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا ان کا موقف درست تسلیم نہیں کر رہا کیونکہ حامد کرزئی نے امریکا کے خلاف سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کا یہ موقف تسلیم نہیں کریں گے کہ وہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو ہدف نہیں بنا سکتے اور امریکا کا پاکستانی خفیہ ادارے کو دہشت گردی کی سرگرمیوں سے روکنے سے انکار کرنا افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حامد کرزئی کی پاکستان کے خلاف بیان بازی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ چند دنوں بعد وہ انتخابات کے بعد صدارتی محل سے باہر ہو جائیں گے اور اب امریکا کے نزدیک بھی ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اب حامد کرزئی اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے اور پاکستان پر الزامات عائد کر کے امریکی سیاسی کھیل کے میدان میں ''ان'' رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی حامد کرزئی کے ان بیانات کی کوئی وقعت نہیں رہی کیوں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کی ہر کوشش کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ افغان طالبان اور وہاں کی حکومت کے درمیان مذاکرات کی بھی پاکستان نے کبھی مخالفت نہیں کی۔

ایسے میں افغان طالبان پاکستان کے کہنے پر کرزئی حکومت سے امن معاہدے سے انکار کیوں کریں گے۔ پاکستانی حکومت خود طالبان سے امن مذاکرات کر رہی ہے وہ افغان طالبان کو امن مذاکرات سے کیسے روک سکتی ہے۔ حامد کرزئی کے اپنے پورے صدارتی دور میں ان کے طالبان کے ساتھ کبھی خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہوئے۔ طالبان کے نزدیک حامد کرزئی امریکا کے کٹھ پتلی ہیں اور امریکا غاصب ہے جس نے ان کے ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ افغان حکومت اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان پر الزامات عائد کر رہی ہے۔ جہاں تک حملوں کا تعلق ہے تو پاکستانی حکومت کسی دوسرے ملک میں عدم مداخلت کا واضح اعلان کر چکی ہے۔ افغانستان میں طالبان امریکا کو جارح سمجھتے ہوئے اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اورحالیہ حملے بھی انھوں نے اسی نظرئیے کی تحت کیے ہیں۔ پاکستان کو بھی افغان صورت حال پر کڑی نگاہ رکھنا ہو گی اور وہ طاقتور گروپ جو افغان صدارتی مہم میں شریک ہیں ان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے ہوں گے تاکہ مستقبل میں کوئی نیا حامد کرزئی نہ آئے جو پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں کر کے اس کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں