
12جون 2009 کو نماز جمعہ کے بعد2 بجکر43 منٹ پر ایک خود کش حملہ آور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے دفتر میں بیرونی دروازے سے داخل ہوا اور اس نے سلام کیلیے ہاتھ بڑھاتے ہی اپنے آپ کوخود کش دھماکے سے اڑا لیا، کمرے میں اس وقت7 سے8افراد موجود تھے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت5 افراد زخموں کی تاب نہ لاکردم توڑ گئے جبکہ باقی شدید زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد خود کش حملہ آور کے سرسمیت جسم کے دیگر اعضا اکھٹے کیے گئے، پولیس نے جامعہ نعیمیہ کے قریب سے 2 مشکوک افراد کو گرفتار بھی کیا، پولیس ذرائع کے مطابق خود کش حملہ آور جنوبی پنجاب کا رہائشی لگتا تھا۔
اس وقت کے سی سی پی او لاہور محمد پرویز راٹھورکا کہنا تھا کہ جامعہ نعیمیہ میں خود کش حملہ آور نے دیگر نمازیوں کیساتھ نماز جمعہ بھی ادا کی تھی، خود کش حملہ آور کا سر اور جسم کے بعض حصے بھی قبضہ میں لے لیے گئے جوقابل شناخت ہیں اور حملہ آور کی جلد شناخت ہوجائے گی، پھر آئی جی پولیس طارق سلیم ڈوگرکا بھی کہنا تھا کہ حملہ آور کے بارے میں بعض شواہد ملے ہیں اس کی شناخت بھی جلد کرلی جائے گی۔ حکومت پنجاب نے جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہولاہور میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی پولیس پنجاب کی سربراہی میں ایک 3 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کے ارکان میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور بھی شامل تھے۔
آج اس سانحے کو5 سال کا عرصہ ہوگیا لیکن نہ تو ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی تشکیل دی گئی کمیٹی کی کوئی رپورٹ عوام کے سامنے آسکی۔ سی سی پی او اور آئی جی پنجاب کے ملزموں کو پکڑنے کے تمام دعوے اور یقین دہانیاں ہوا ہوگئیں۔ اس حوالے سے جامعہ کے موجودہ مہتمم اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے صاحبزادے ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک اس سانحے کی تحقیقات کے حوالے سے سرکاری طورپر ہونے والی کسی پیش رفت کا علم ہے نہ ہی اس حوالے سے کسی ادارے یا ایجنسی نے ان سے رابطہ کیا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔