چھٹیاں منانے والی قوم

اس وقت شاید ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے اور کام چوری کے سب سے زیادہ عذر تلاش کرنے والی قوم ہیں۔


اس وقت شاید ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے اور کام چوری کے سب سے زیادہ عذر تلاش کرنے والی قوم ہیں۔ فوٹو : فائل

اس وقت شاید ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے اور کام چوری کے سب سے زیادہ عذر تلاش کرنے والی قوم ہیں۔

اس وقت بھارت میں سالانہ صرف چھ قومی تعطیلات ہوتی ہیں۔ چین دس، روس آٹھ، سنگاپور چھ، نیوزی لینڈ سات، امریکہ بارہ اور برطانیہ میں آٹھ سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اسلامی ممالک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جبکہ صرف پاکستان میں سالانہ سرکاری چھٹیوں کی تعداد 18 ہے۔ اس کے علاوہ ہنگامی چھٹیاں، میڈیکل، اَرنڈ اور ڈیپارٹمنٹل لیوز (چھٹیوں) کی تعداد بھی ہوشربا حد تک زیادہ ہے اور سب سے زیادہ تشویش والی بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں اور بنیکوں میں اکثر لوگ بغیر بتائے مرضی سے چھٹی کر جاتے ہیں۔

اس دن لیٹ یا اگلے دن درخواست دے دیں گے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی وجہ سے آنے والے سائل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دفتری کام رک جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس اور دکھ والی بات یہ ہے کہ دوسروں کا احساس اور ہمدردی، جوکہ ہمارے مذہب کا طرہ امتیاز ہے، ناپید ہوچکا ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ کشمیر ڈے یا کوئی اور قومی دن جس کے لیے یہ چھٹی مقصود ہوتی ہے اس کی افادیت کے مطابق منانے اور اظہار یکجہتی کرنے کے بجائے گھر میں سوکر اور گپ شپ میں گزار دیا جاتا ہے۔ ہمارا یہ فعل مردہ جسم اور قومی کردار کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔

میں نے تقریباً 32 سالہ فوجی سروس میں ایسا فوجی آفیسر یا جوان نہیں دیکھا جس نے بغیر اشد مجبوری کے اور وہ بھی گھر بیٹھے بروقت اطلاع نہ کی ہو اور اجازت نہ مانگی ہو۔ چھٹی پر گئے ہوئے افسر یا جوان نے اگر کسی بہانے چھٹی بڑھانے (Extend) کیلئے درخواست بھیج دی یا ٹیلیفون کردیا تو اس کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے، فوج میں اکثر کمانڈر حسب ضرورت فوج کے جوانوں کے ساتھ قریبی رشتہ (Contact) رکھنے، ان کے مورال کا خیال رکھنے، ان کی خوراک اور فیملی پرابلم جاننے کیلئے مہینہ میں ایک عام میٹنگ کے ذریعے ملاقات کرتے ہیں۔

میں کیپٹن تھا اور رجمنٹ میں بحیثیت ایجوٹننٹ (Adjutant) ہیڈکوارٹر، ٹروپس کا کمانڈنگ افسر بھی تھا۔ جوانوں کو ہمیشہ پابندی وقت کے ساتھ چھٹی ختم ہونے کے بعد بغیر کسی بہانے اور حیل و حجت کے واپس آنے کی تلقین ہوتی تھی اور کوئی ٹیلیفون یا مزید چھٹی کیلئے درخواست نہ کرنے کیلئے کہا جاتا تھا اور ان تمام باتوں کا تقریباً 99 فیصد اثر بھی ہوتا تھا۔ ایک دن میں صبح تقریباً آٹھ بجے اپنے دفتر میں بیٹھا کام کررہا تھا کہ میرے صوبیدار صاحب نے آکر بتایا کہ سر سپاہی اللہ دتہ چھٹی پر گیا ہوا تھا اس نے چھٹی ختم ہونے پر آج صبح دفتری اوقات سے پہلے رپورٹ کردی ہے، لیکن اس نے آکر بتایا ہے کہ رات کو اسی کی بیوی فوت ہوگئی ہے۔ کیونکہ ٹروپ کمانڈر صاحب کا حکم تھا کہ ٹیلیفون نہیں کرنا اس لیے وقت پر واپس آگیا ہوں۔

میں نے اس جوان کو بلایا اور اس کے ساتھ افسوس کرنے کے بعد شاباش دی۔ جیب سے نکال کر کرایہ بھی دیا اور مزید دس دن چھٹی دے کر روانہ کردیا۔ یہ مثال دینے کا مقصد صرف اور صرف ایسے لوگوں کو احساس دلانا ہے جو اکثر گھر بیٹھے موڈ نہ ہونے کی وجہ سے یا کسی اور عارضی یا من گھڑت بہانے سے چھٹیاں کرتے ہیں۔ میں یہاں یہ بھی باور کرانا چاہتا ہوں کہ وقت پر کام نہ کرنا اور جس ڈیوٹی کی سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں اگر آپ اس کا صحیح حق ادا نہیں کررہے تو یہ بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کو اس کا جواب دینا ہے۔

(ہاں یہ سچ ہے از بریگیڈئیر (ر) محمد اسلم گھمن)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں