بات کچھ اِدھر اُدھر کی بے حس معاشرہ

بھرے محلے میں ساری رات ایک طوفان بدتمیزی برپا کرنا صرف مذہب ہی نہٰں بلکہ اخلاقی قدروں کے بھی خلاف ہے


معاشرے میں اگر اسی قسم کے بیہودہ محافل ہوں اور ان کی سرپرستی باقاعدہ طور پر کی جائے تو یہ اس معاشرے کے افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ فوٹو فائل

رات کا نجانے وہ کون سا پہر تھا۔ جب کوئی میرے کان کے قریب زور سے چنگھاڑا...جب آنکھوں کے پٹ کھول کر غور کیا تو کوئی بیہودہ سا گانا انتہائی بھونڈی آواز میں گانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک تو پہلے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے دماغ کے چودہ کیا...اٹھائیس طبق روشن کردیے تھے۔ اب یہ واہیات گانا کانوں سے ایسے ٹکرا رہا تھا جیسے کوئی شرارتی بچہ ٹین پر پتھر مار رہا ہو۔ غصے میں بھنّاتے ہوئے جب ہم نیچے اترے تو ایک اور عجیب منظر دیکھا...یہاں بالی ووڈ کا جلوہ بھی اپنے عروج پر تھا...اس طوفان بدتمیزی کو دیکھتے ہوئے اندر کا سویا ہوا ضمیر بھی کسمسانے لگا... پڑوس کے ایک بزرگ پر نظر پڑی...ان سے جب اس بیہودگی کو بند کرنے کے لیے مدد مانگی تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے... کچھ مزید ایسے لوگ تھے جن کے متعلق گمان تھا کہ وہ محلے کے اندر اس بے شرم محفل کو رکوانے کی کوشش کریں گے... لیکن یہ کیا... تھوڑی دیر بعد جب اسی محفل سے علاقے کے معززین کو نکلتے دیکھا تو شرم سے ہماری نظریں جھک گئیں... اس محفل میں ان لوگوں کو بھی دیکھا جو وعظ ونصیحت کرنے والے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں...

آپ مذہب کو ایک طرف رکھیے ... اگر اخلاقی طور پر بھی دیکھے تو یہ طرز عمل کسی بھی حوالے سے مناسب نہیں۔ بھرے محلے میں ساری رات ایک طوفان بدتمیزی برپا کرنا اخلاقی قدروں کے بھی خلاف ہے...ان گھروں میں معصوم بچے اور ضعیف افراد بھی ہوتے ہیں جو ذرا دیر کے لیے بھی شور برداشت نہیں کرسکتے تو پھر یہ اُن کے لیے کس قدر پریشانی کا سبب بنتا ہوگا جب رات کے 2 بجے آپ فل والیوم میں گانے چلا کر انہیں پریشان کریں...شادی ہال کا کلچر اسی لیے اچھا ہے کہ محلے سے قدرے دور آپ اپنی تفریح کا سامان کریں جہاں آپ کو کوئی روکے گا بھی نہیں ...

معاشرے میں اگر اسی قسم کے بیہودہ محافل ہوں اور ان کی سرپرستی باقاعدہ طور پر کی جائے تو یہ اس معاشرے کے افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے... ہمارے محلے میں جب اس طرح کی واہیات محفل میں نے دیکھی تو ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا کہ شاید اس محلے میں کوئی مسلمان نہیں بستا...لیکن پھر سوچا کہ اِس کا تعلق اِسلام سے تھوڑی ہے کیونکہ ہم سے توغیرمسلم اچھے ہیں جو اخلاقی قدروں کا پاس کرتے ہیں اور کچھ ہوجائے اپنے پڑوسیوں کو تنگ نہیں کرتے، نہ ہی وہاں راتوں کو بھرے محلے میں اِس قسم کی تقاریت کا انعقاد ہوتا ہے، ارے بھری محفل کو چھوڑیں مغربی معاشرے میں اِس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ شام کے بعد گھر میں اِس قدر آہستہ سے بات کی جائے کہ پڑوسی کے گھر آواز نہ جائے۔

جب میں یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں تو مجھے اپنے ایک دوست کا واقعہ یاد آیا ... دوست نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے بڑے بھائی کی برات سے واپسی پر رات ۱۱ بجے چائنا بم پھاڑا... ابا قریب ہی کھڑے تھے... شکل سے خوش دکھائی دے رہے تھے... لیکن اس وقت ان کی شکل سپاٹ ہوگئی اور انہوں نے مجھے زور کا چانٹا رسید کیا... اور کہا:'' رات کے اس وقت لوگوں کی نیندیں خراب کرتے ہو۔'' دوست نے کہا کہ یہ تھپڑ مجھے ہمیشہ یاد رہا اور رہے گا... اور اسی تھپڑ نے مجھے لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے باز رکھا ہے... ہاے ہاے... اب ایسے لوگ کہاں ملیں گے۔

شروع میں جس محفل کا ذکر کر رہا تھا۔ اسی محفل میں ایک شخص چیختا ہوا آیا کہ خدا کے لیے اس تماشے کو بند کرو میرے باپ کی طبیعت خراب ہے تو لوگوں نے مزید بلند آواز کے ساتھ نہ صرف گانے چلائے بلکہ ہوائی فائرنگ بھی کرکے ساس کے والد کو سکون پہنچانے کی کوشش کی... معلوم نہیں ہم لوگ اتنے بے حس کیسے ہوگئے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں