ماہِ رمضان نیکیوں کا عالمی موسم بہار

شفیق ذات کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے شفقتوں بھری پیشکش


شفیق ذات کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے شفقتوں بھری پیشکش۔ فوٹو: فائل

اللہ رب العزت کے لاکھوں، کروڑوں بلکہ ارب ہا ارب احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے محض اپنے لطف و کرم سے ہمیں اس دنیوی فانی زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کے مہینے تک پہنچا دیا۔

یہ وہ مہینہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے جناب محمد رسول اللہﷺ رجب کا چاند دیکھ کر رمضان تک پہنچا دیے جانے کی اﷲتعالیٰ سے دعا مانگا کرتے تھے، چنانچہ آپ کی دعائوں میں ایک دعا رجب کے چاند کو دیکھتے ہوئے یہ ملتی ہے کہ (اَللّٰہُمَّ بارک لنا فی رجب وشعبان و بلغنا رمضان) ''اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرمادیجئے اور ہمیں ماہ رمضان تک پہنچا دیجئے۔''

گزشتہ سال کتنے ہمارے مسلمان بھائی اس دنیا میں ہمارے ساتھ رمضان کے مہینے کی فیوض و برکات کے حصول میں شریک تھے، آج وہ اپنی دنیوی فانی زندگی پوری کرتے ہوئے منوں مٹی آرام فرما رہے ہیں اور ان کے ذاتی اعمال کا کھاتہ بند ہو گیا ہے اور ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندہ رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس ماہ مبارک کے فیض و برکات کے حصول کے لیے زندہ اور صحت مند رکھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کماحقہ اس پورے مبارک مہینے میں ہر ہر لمحے کو اجر کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے شایان شان حاصل کرنے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔

یوں تو وقت کے اعتبار سے یہ مہینہ سال کے بارہ مہینوں ہی کی طرح ہے، اس میں بھی اسی طرح چوبیس گھنٹے کے دن اور رات ہوتے ہیں، جیسے دیگر مہینوں میں پائے جاتے ہیں لیکن اس ماہ مبارک میں مسلمانوں کو ان کے اعمال صالحہ پر مقدار کے اعتبار سے ایک ایک عمل پر جتنا جتنا اجر ملتا ہے، وہ سال کے دیگر مہینوں میں نہیں پایا جاتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق نفل کو فرض کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ ایک فرض کو ستر فرائض کے برابر کر دیا جاتا ہے، اسی چوبیس گھنٹے میں وقت کے اعتبار سے تو بندہ اتنا ہی عمل کر سکے گا جتنا کہ دیگر مہینوں میں کر سکتا ہوگا لیکن اجر کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں اس میں سے ستر گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

انتہائی بدنصیب ہے وہ مسلمان جس کو لگاتار اس مہینے کے انتیس یا تیس دن ملیں اور اس میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ آ سکے کہ جس پر اسے رحمت، مغفرت یا جہنم سے آزادی کا پروانہ، نہ مل سکے جبکہ وہ رحیم و کریم، شفیق و محب، صمد و بے نیاز ذات مسلسل یہ پروانے بلاامتیاز چار دانگ عالم میں لٹا رہی ہوتی ہے جیسا کہ اس کی تائید نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد مبارک سے ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہو چکے تھے اور جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے تھے ان کے برابر اس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں۔ (کذافی، الترغیب، البہیقی)

(دس لاکھ X تیس = تین کروڑ)1000000 x 30 = 30000000/=

اس روایت کے حساب سے تین کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں ایک سال کے رمضان میں مغفرت کے پروانے حاصل ہو جاتے ہیں اور ان کا تعلق ایمان والوں کے ساتھ ہے اور واضح رہے کہ یہ ایک رمضان کی تعداد ہے جنہیں افطار کے وقت مغفرت کے پروانے ملتے ہیں، جس سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ افطار کے علاوہ کے وقت میں مغفرت نہیں ہوتی۔ یہ تو ترغیب و تشویق (شوق بڑھانے کے لیے ایک روایت ذکر کی گئی ہے، ورنہ وہ بخشنے والی ذات تو ہر آن، ہر لمحے رمضان کے پہلے دس دنوں میں اپنی بے انتہا رحمتوں کی بارش جاری رکھتی ہے اور اگلے دس دنوں میں اس رحمت کو مغفرت سے بدلتے ہوئے اس کی کثرت میں اضافہ فرماتی رہتی ہے اور بیس دن گزر جانے کے بعد تو اپنے بندوں پر اپنی رضا مندی کے سرٹیفکیٹ جہنم سے آزاد کر دیے جانے کے پروانوں کے ساتھ ہر آنے والے کو بلا کسی پس وپیش، بلاکسی محبت، بلاکسی چون و چرا، بلا کسی محاسبے کے عطا فرماتی رہتی ہے۔

یہ تو ایک سال کے رمضان میں اللہ کی رحمت کے برسنے کی ایک جھلک ہے، میں اور آپ غور فرمائیے کہ بالغ ہونے سے لے کر اب تک ہماری زندگیوں میں کتنے رمضان آ چکے ہیں، کیا ہم اپنے آپ کو کسی ایک رمضان میں بھی اس قابل نہ بنا سکے کہ اس برسنے والی رحمتوں کے کچھ چھینٹے ہم پر بھی نازل ہو جاتے ہیں جبکہ رمضان شریف کی تکمیل پر عید کے دن، عید کی نماز میں خود وہ بخشنے والی ذات اعلان کرواتی ہے کہ تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں نے تمہیں اپنی رضامندی کا پروانہ عطا کر دیا۔

اس انمول فیاضی کے بعد بھی اگر کوئی آدمی ان فیوضات و برکات سے محروم رہتا ہے تو اس کے شقی، بدبخت ہونے میں کیا شک ہے؟ اور اس شقی و بدبخت کی اب بھی ایک خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے موت سے پہلے ایک اور رمضان عطا فرماتے ہوئے یہ موقعہ دیا جا رہا ہے کہ وہ ناراض رب کو راضی کرنے کے لیے اس کی بارگاہ میں رجوع کر لے جس کا اہتمام خود رب کی طرف سے بھی اس طرح کیا گیا ہے کہ اس نے روزانہ رمضان کے مہینے میں ہر رات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہوں اور آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار بس کر اور آنکھیں کھول۔(مروی عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ، کذا فی الترغیب)

فرشتوں کی یہ آواز اگرچہ ہر صاحب ایمان کو سنائی تو نہیں دیتی لیکن حقیقت ہے کہ آواز لگوائی جاتی ہے، اس لیے کہ یہ بات کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ مخبر صادق جناب محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی ہر بات غلط ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقاﷺ کا فرمایا ہوا کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ ہم فرشتوں کی یہ آواز سن سکیں یا نہ سن سکیں لیکن اس کا اثر ضرور محسوس کر سکتے ہیں کہ اعمال صالحہ کے لیے عمومی فضا ایسی موافق بن جاتی ہے اور ایسا ماحول قائم ہو جاتا ہے کہ نیکیوں کی طرف صاحب ایمان ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے غیر اعلانیہ کوششوں میں لگ جاتے ہیں کہ نمازوں کے اوقات میں بھی وقت کا اعلان بذریعہ اذان ہوتے ہی کیا بچے، کیا جوان کیا بوڑھے مساجد کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں، اس طرح رمضان میں کیے جانے والے دیگر بدنی و مالی عبادات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔)

فرشتہ اس اعلان کے بعد کہتا ہے کہ کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کا چاہنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے، کیا اسی بدنصیب کو اس سے بہتر کوئی اور موقع فراہم کیا جا سکتا ہے؟ اللّٰہ جل شانہ وعم نوالہ بے نیاز ہونے کے باوجود رجوع کرنے کے ایسے سہل اور آسان مواقع فراہم کر رہا ہے۔

ان مواقع کو مسلسل ایک ماہ جاری رکھ رہا ہے لیکن یہ ضرورت مند بند ضرورت مند ہونے کے باوجود ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی بے نیازی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے تو اس کی ہلاکت کی بددعا خود جبرائیل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے کرائی گئی اور نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے جبرائیل امین کی دی جانے والی اس بددعا پر آمین کہوائی گئی۔ (رواہ الحاکم،وابن حبان)...اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان المبارک کی رحمتیں اور برکتیںوسمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی محرومی سے بچائے...آمین یا رب العالمین...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں