میرا پوتا تو نہیں دیکھا؟
مائی وزیرستان سے آئی ہو تو شناختی کارڈ دکھاؤ۔
وہ ابھی تو کوئی لے کر گیا مجھ سے،راشن دلانے کا وعدہ کر کے۔
لیکن میرا پوتا؟
کارڈ دکھاؤ مائی؟
وہ لے گیا کوئی اور میرا پوتا۔
صبح سے اب تک یہی وہ سوال جواب ہیں جو مائی اب تک درجنوں بار دہرا چکی ہے.
مائی سیکڑوں کے مجمعے میں واحد عورت ہے جس کا کا چہرہ کھلا ہے۔ اس علاقے کی سماجی روایت کے مطابق عورت کا چہرہ اس وقت تک برقعے سے ڈھکا رہتا ہے جب تک اسے جھریاں نہ ڈھک لیں۔ 50 درجے کی حرارت ما ئی نے زندگی میں کئی بار دیکھی ہے۔ بھوک اور پیاس کی ایسی شدت بھی شاید برداشت کی ہوگی۔ شامیانے کے نیچے خشک خوراک کے ڈھیر، اجبنی مردوں کے ٹولے اور کیمرے لے کر بھاگتی میڈیا ٹیمیں البتہ اس کے لئے نئی ہیں۔
افتاد یہ نہیں کہ اس کے گاؤں میں جنگ چھڑ گئی تھی۔ یہ بھی نہیں کہ اسے اور اس کے خاندان کو راتوں رات دیس نکالے کا سندیس ملا تھا۔ اسے تو اس وقت شمالی وزیرستان سے بنوں تک پیدل چل کر آنے کی تکلیف بھی یاد نہیں۔ افتاد یہ ہے کہ اس کا 10 برس کا پوتا سیکڑوں کے اس مجمعے میں اس کا ہاتھ چھڑا کر کھو چکا ہے۔ اور راشن کا ٹوکن دلانے کے نام پر کوئی اس کا شناختی کارڈ لے کر چلتا بنا ہے۔
ضرب عضب سے پہلے اور بعد کی بحثیں کیا ہیں۔ شمالی وزیرستان کے پر پیچ اور سنگلاخ ترین محاز پر فوجیں کیونکر لڑ رہی ہیں اور ان کے حملوں کی زد میں طالبان کون سے قبیل کے ہیں۔ ازبک ہیں افغانی یا پاکستانی۔ آپریشن کامیاب ہوا تو پائیدار کس حد تک ہو گا؟ کارروائی تین سال پہلے کیوں نہ ہوئی۔ اور اب ہوئی تو کیوں ہوئی۔ امدادی چیک فوج، صوبائی اور وفاقی حکومت کے بیچ چکرا رہے ہیں یا آئی ڈی پیز کے ہاتھ میں تھمائے جا رہے ہیں۔ سوالوں کی یہ کھیپ اے سی بند ٹی وی اسٹوڈیو میں جاری کرنا ہم جیسی چالو ٹاک شوز کی ٹیموں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سوالوں کے جواب نہ بھی ملیں بحث کی پٹاری ضرور کھل جاتی ہے اور ریٹنگ کا شہد حسب توفیق جمع کرلیا جاتا ہے۔
لیکن سوال دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ریٹنگ کا شہد زہر سے تلخ معلوم پوتا ہے۔ جب بنوں کے سپورٹس کمپلیکس میں کوئی مائی آپ سے ٹکرا جاتی ہے۔
جب شمالی وزیرستان سےآنے والوں کی گفتگو مترجم نے مجھے سنائی تواس نے بتایا کہ وہ وطن لوٹنا چاہتے ہیں۔
میں نے مترجم سے کہا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے یہ لوگ اپنے علاقے واپس لوٹنا چاہتے ہیں، ورنہ وطن تو پاکستان ہی ہے۔
میرے استسفار پر مترجم نے مزید مہاجرین سے پوچھا اور مجھے بتایا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان جانے ، پاکستان کا کام جانے۔ ہمارا وطن تو وزیرستان ہی ہے۔
بات تلخ ہے۔ مگر دل سے نکلی ہے۔ انگریزی کہاوت ہے ہوم از وئیر دی ہارٹ از ۔ 37 سے 50 کلومیٹر پیدل چل کر آنے والوں کویہاں امان ملتی تو دل بھی یہاں ضرور لگا لیتے اور بنوں کے کیمپوں کو گھر بنا لیتے۔ لیکن آگ برساتی دھوپ میں گھنٹوں کی لمبی قطاریں۔ خشک راشن کے طویل انتظار اور مدد کے لئے بے سود پکارنے ان کی بے گھری کے عذاب کو دو چند کر دیا ہے۔ اپنا ہی گھر ہوتا تو ایسی بے اعتنائی دامن میں نہ ڈالی جاتی۔
میران شاہ کا گھر اجڑ چکا۔ بنوں کی بستی اجنبی بن گئی۔ گھر کہاں ہے؟ وطن کو کب لوٹیں گے۔ 5 لاکھ آئی ڈی پیز کو پاکستانیت سے محبت پر میں نہیں اکسا سکتی تھی۔ البتہ مائی کے شناختی کارڈ پراس کو اس کی پاکستانیت کا ثبوت ضروردیتی۔ لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں بھی کوئی نو سر باز اس کی شناخت لے کر چلتا بنا۔ تو بھلا میں کیسے بتاتی۔ وطن پاکستان ہی ہے۔ گھر بنوں بھی ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ بھی جھٹلاوں تو کیسے ہوم از وئیر دی ہارٹ از۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔