یوم سیاہ…
پاکستانی قوم ہر سال 5 جولائی کا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے،
پاکستانی قوم ہر سال 5 جولائی کا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے، کیونکہ اس دن 1977ء کو ایک فوجی آمر، جنرل ضیاء الحق نے شب خون مار کر عوام کے منتخت وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کو ختم کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور دس سال تک سیاہ و سفید کا مالک بن کر صہیونی طاقتوں اور بین الاقوامی سازشیوں کو خوش کرتا رہا۔ اس آمر نے نام نہاد ریفرنڈم کرایا اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے اسلام کا نعرہ لگاتا رہا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنمائوں اور کارکنوں کو کچلتا رہا، ان کو نام نہاد مقدمات کے تحت عمر قید اور موت کی سزائیں دی گئیں، حتیٰ کہ ایک نام نہاد مقدمہ کے ذریعے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کئی سال تک جیل میں رکھ کر ایک عدالتی فیصلہ کے تحت 4 اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔
جنرل ضیا ء الحق کا یہ اقدام وحشیانہ، ظالمانہ اور جارحانہ تھا جس نے بڑی جدوجہد کے بعد قائم کردہ جہوری حکومت کو ختم کر کے پاکستانی قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور تاریخ میں ملک وقوم کو اندھیرے میں ڈال دیا، اس حوالے سے قوم اس دن کو ہمیشہ یوم سیاہ کے حوالے سے مناتی رہے گی۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک قومی لیڈر ، دوراندیش زیرک سیاستدان، مدبر راہنما اور کرشمہ ساز شخصیت تھے، انھوں نے سیاست کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ڈرائنگ رومز سے نکال کر غریبوں اور محروموں کی دہلیز پر لا کھڑا کیا، اس تبدیلی کی بدولت بے زبان اور مظلوم عوام کو زبان ملی اور انھیں اپنے حق کے لیے لڑنے کا سلیقہ آیا، آج کا جمہوری نظام بھٹو شہید کا قوم کو تحفہ ہے، انھوں نے نہ صرف جمہوری سیاست کی بنیاد رکھی بلکہ اسے ایک قابل تقلید ، قابل عمل اور شاندار نظام بنا دیا۔
ماضی قریب کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ملک میں مفاد پرستوں اور اقتدار کے پجاریوں نے آمروں کے ساتھ مل کر بھٹو شہید کے فلسفے اور نظام سے روگردانی کرتے ہوئے ملکی نظام اور آئین میں بھی کئی طرح کی نقب زنی کر کے آئین اور ملکی نظام کو برباد کیا مگر آج اگر اس ملک کو صحیح راستہ اور صحیح سمت ملی ہے تو وہ جمہوریت کی بدولت ہے اور اس جمہوریت کی بدولت بھٹو شہید کی سیاست کا مقصد عوامی نمائندگی کا حق وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی مٹھی سے نکال کر عوام کی جھولی میں ڈالنا تھا اس مقصد کے تحت انھوں نے سرزمین بے آئین کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا، پس ماندہ علاقوں اور پسے ہوئے عوام اور طبقات کو شعور دیا۔
عوام کو عزت ِ نفس اور خود اعتمادی دی، بھٹو شہید جانتے تھے کہ عوام کے حق میں مثبت اور پائیدار تبدیلی محض نعروں سے نہیں آ سکتی لہذا انھوںنے ایک طرف خلیجی ممالک میں پاکستانی عوام کے لیے روزگار کے بے پناہ مواقع مہیا کیے ، مفت تعلیم کے دروازے کھولے تو دوسری جانب پاکستان کوایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی، اسٹیل مل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا، کامرہ ایرونائیکل کمپلیکس کی تکمیل کی، جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کیا اور سب سے بڑھ کر تیسری دنیا اور اسلامی دنیا سے ہمارے تعلقات کے تعین میں ایک سنہری باب ہے اور پاک چین دوستی کا معمار شہید بھٹو ہے ۔
5 جولائی 1977 ء کے بعد ساری پاکستانی قوم اور دنیا نے دیکھا کہ اس ملک کو جمہوری آئین دینے والے، اسلامی، دنیا کے اتحادکے پیامبر، پاک چین دوستی کے معمار، ختم نبوت کو آئین اور قانون میں شامل کر کے اسلام کو سرفراز اور بلندکرنے والے، بھارت سے 90 ہزار جنگی قیدی چھڑانیوالے اور غریبوں، مظلوموں اور مسکینوں کے ہمدرد بھٹو کے ساتھ کیا ہوا، ایک آمر ضیا ء الحق نے اپنے اقتدار کے دوران یہ درخشندہ چراغ گل کر دیا۔
ضیاء الحق اسلام کا نام لیوا تھا مگر اس آمر کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا بلکہ بیرونی اور استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل بنام اسلام اس کا مشن تھا اور اس مشن کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ آمر مطلق کا اقتدار اور ناجائز قبضہ طویل عرصہ کے لیے قائم رہے اور وہ بیرونی آقائوں کی جنبشِ آبرو پر ملک کو طویل ترین دہشت گردی، ناانصافی، لاقانونیت، منشیات فروشی، اسلحہ کی اسمگلنگ، اغواکاری، بھتہ خوری اور عدم استحکام کی آگ میںجھونک سکے، اقتدار اور حکومت ضیاء الحق کا حق نہیں تھا مگر اُس نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا۔
90 دن میں انتخابات کا وعدہ کیا اور بلا وجہ اقتدار پر زبردستی قبضہ رکھنے کے لیے قدم قدم پر جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا، پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے پارٹی کے راہنمائوں، کارکنوں اور حمایتوںکو گرفتار کر کے جیلوں میں ان پر کوڑے برسائے گئے عمر قید اور موت کی سزائیں دی گیئں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے اور اسلامی بلاک بنا نے پر ظالمانہ اور وحشیانہ سزا د ی گئی جس کی طرف شہید بھٹو نے اپنی زندگی میں پشاور کے جلسہ عام میں تقریر کے دوران اشارہ دیا تھا اور کہاتھا '' A White Elephant Wants My Head '' اور بھٹو شہید کی یہ پیش گوئی 4 اپریل 1979ء کو پوری ہو گئی ۔
وقت سب سے بڑا منصف ہے، بھٹو کی شہادت کے 35 سال بعد بھی ہم نے دیکھ لیا کہ بھٹو شہید نے عوام اور ملک سے اپنی سچی لگن کی بدولت صبر سے ملک اور عوام کے دلوں پر حکومت کی اور اس کا قاتل آج تک محروم و تنہا ہے اور عوام بھٹو شہید کے ویژن عمل اور قربانی کو یاد رکھے ہوئے ہیں اور تاقیامت یاد رکھیں گے کہ اس نے قتل گاہوں سے خوف کھا کر سچائی کا راستہ نہیں چھوڑا، شہید بھٹو نے جو کہا وہ کر دکھایا، ''میرا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے، میں مسلمان ہوں اور مسلمان کی تقدیر خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور میں اپنے شفاف ضمیر کے ساتھ اپنے رب کا سامنا کر سکتا ہوں'' یہ الفاظ بھٹو شہید نے ایسے ہی کہے اور ایسا ہی کر دکھایا۔
یہی وجہ ہے کہ آج 35 سال بعد بھی بھٹو زندہ ہے اور عوا م کے دلوں کی دھڑکن ہے، آج بھی ہر سال 4 اپریل کے دن برسی کے موقع پر پاکستان کے ہر کونے سے ''شہید بھٹو زندہ باد'' کی آوازیں گونجتی سنائی دیتی ہیں ، یہ جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی عظیم جدوجہد اور قربانی کا ثمر ہے کہ آج جمہوریت پھل پھول رہی ہے اور ''ظلمت کو ضیا'' کہنے والا کوئی نہیں۔ میں مسلمہ حقیقت اور تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بھٹو ایک سوچ ، ایک نظریہ بن چکا ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے۔