دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ
میں بنیادی طور پر ریاست اور حکومت کو ذمے دار، موثر اور شفافیت پر مبنی ریاست کے طور پر دیکھتا ہوں۔
میں بنیادی طور پر ریاست اور حکومت کو ذمے دار، موثر اور شفافیت پر مبنی ریاست کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ایک ریاست اسی صورت میں مذہب اور اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکتی ہے جب وہ معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے درمیان کسی بھی قسم کی سیاسی' سماجی، معاشی، جنسی اور لوگوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں تفریق نہ کرتی ہو۔
کیونکہ بلاتفریق تمام طبقات کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔ بنیادی ضروریات سے مراد تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، شیلٹر جیسے امور شامل ہیں، جس میںریاست اپنے آئین کے پہلے باب ''بنیادی حقوق کی فراہمی'' میں یہ دعویّ کرتی ہے کہ وہ تمام شہریوں میں کسی بھی طرح کی تفریق نہیں کرے گی۔ لیکن ہم جس ریاست کا حصہ ہیں وہاں ریاست بہت تیزی سے اپنی بنیادی ذمے داریوں سے بھی غافل ہوتی جا رہی ہے۔
ایک ایسی ریاست اور حکومت جو اپنی ذمے داری سے غافل ہو، وہاں معاشرے میں محرومی اور استحصال کی سیاست کو تقویت ملتی ہے اور اس کا نتیجہ معاشرے میں ایک بڑے طبقاتی تفریق کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایسے میں سماجی خدمت کے اداروں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ادارے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عملی طور پر ریاست یا حکومت کی ذمے داری بنتی ہے۔
اگرچہ یہ ادارے ریاست یا حکومت کا متبادل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو یہ سمجھنا چاہیے، لیکن اس کے باوجود ان اداروں سے معاشرے کے ہزاروں اور لاکھوں افراد فائدہ اٹھاتے ہیں، وگرنہ دوسری صورت میں معاشرتی محرومی کا پہلو اور زیادہ نمایاں ہوتا۔ اگرچہ اس طرز کے سماجی اداروں کی فہرست طویل ہے، لیکن چند ایک اہم اداروں کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جو اس وقت نہایت ہی ذمے داری، شفافیت اور اپنی مضبوط کمٹمنٹ کے ساتھ ایک فعال کردار میں موجود ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ان اداروں کے ذمے داران سمیت ان کے کاموں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اس لیے مجھ سمیت بہت سے لوگ ان کے کاموں کے مداح بھی ہیں۔
ہمارے دوست اور بھائی ڈاکٹر امجد ثاقب کی سربراہی میں ایک ادارہ ''اخوت'' چل رہا ہے۔ ''اخوت'' کا سفر بنیادی طور پر معاشرے میں غربت اور افلاس کو ختم کرکے لوگوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے۔ 2001 سے ''اخوت'' نے دس ہزار روپے کے قرض حسنہ سے جو سفر شروع کیا اب وہ اربوں روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح 99.85 فیصد ہے، جو دنیا کے تمام ممالک میں قرضوں کی واپسی کی شرح میں سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ غریب لوگوں کو قرضہ فراہم کرنے اور انھیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے میں ایک بڑا نام بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کا ہے جو وہاں گرامین بینک کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن گرامین بینک کے مقابلے میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا کمال یہ ہے کہ وہ یہ قرضے بلاسود اور بلاتفریق فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح اخوت کسی عالمی اداروں پر انحصار نہیں کرتی، بلکہ وہ صرف مخیر حضرات سے تعاون طلب کرکے وہی پیسہ غریب لوگوں میں قرض حسنہ کے طور پر دیا جاتا ہے۔
اس وقت تقریبا 5,36,321 مرد اور عورتوں کو قرضہ حسنہ فراہم کیے گئے ہیں۔ ادارہ کی اس وقت 272 برانچ ہیں اور تقریبا ملک کے 186 شہروں اور ٹاونز میں ان کے دفاتر ہیں۔ جو لوگ ادارے کی مدد عطیات کی صورت میں کرنا چاہتے ہیں وہ میزان بینک، اکاونٹ نمبر0222-03600000070 برانچ کالج روڈ 6-2-C1 ٹاون شپ لاہور میں کرسکتے ہیں۔
پی او بی ٹرسٹ کے سربراہ ڈاکٹر انتظار بٹ ہیں۔ یہ ادارہ جولائی 2007 سے پاکستان اور پاکستان سے باہر لوگوں کو آنکھوں کے امراض میں علاج و معالجہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب تک اس ادارے نے ملک اور ملک سے باہر 536 آئی کیمپ لگائے ہیں جن میں تقریبا دس لاکھ سے زیادہ افراد نے استفادہ حاصل کیا، تقریبا ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کے مفت آپریشن بھی کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کے بقول سالانہ بنیادوں پر ہم پانچ ہزار افراد کے آپریشن ملک میں اور پانچ ہزار کے قریب ملک سے باہر افریقی ممالک میں کرتے ہیں۔
یہ ادارہ فری آئی کیمپ، آپریشن تھیٹر سمیت معاشرے میں آنکھوں کی دیکھ بھال کے لیے شعور کی آگاہی کی مہم کو چلاتا ہے، تاکہ لوگ آنکھوں کی بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پی او بی صرف ان علاقوں میں توجہ دیتی ہے جہاں ڈاکٹرز یا دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی نہیں ہے۔ اس وقت تقریبا پاکستان میں ساڑھے سولہ لاکھ افراد ایسے ہیں جو آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کے بقول ان میں سے 75 فیصد مریض ایسے ہیں جن کا اگر مناسب اور بروقت علاج کرلیا جائے تو ان مریضوں کی بینائی واپس بحال ہوسکتی ہے۔
جو لوگ اس ادارے کی مدد کرنا چاہیں توو ہ اپنے عطیات، پی او بی ٹرسٹ، اکاونٹ نمبر 1500060001591 فیصل بینک لمیٹڈ، بینک اسکوئر مارکیٹ ماڈل ٹاون لاہور یا 704 کامران بلاک علامہ اقبال ٹاون پر رابطہ کرسکتے ہیں۔''گھرکی'' اسپتال ٹرسٹ کے اسپائن اینڈ آرتھو پیڈک شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر عامر عزیز بھی ایک قابل قدر نام ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی پہلی جدید علاج گاہ ہے جہاں جدید خطوط پر تجربہ کار ڈاکٹروں کی مدد سے غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا علاج فری کیا جاتا ہے۔ یہ اسپائن سینٹر 114 بستروں اور پانچ بڑے آپریشن تھیٹروں پر مشتمل ہے۔ اس منصوبہ پر تقریبا 40 کروڑ سے زیادہ کی رقم خرچ ہوگی۔
ڈاکٹر عامر عزیز کے بقول ہر سال تقریبا چالیس سے پچاس ہزار افراد ریڑھ کی ہڈی کے امراض کا شکار ہوتے ہیں، اور تقریبا ہر سال ایک لاکھ مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹی بی کے بیشتر مریضوں کو ریڑھ کی ہڈی کی سرجری درکار ہوتی ہے۔ ادارہ کا اپنا انڈومنٹ فنڈ بھی ہے اور عالمی سطح پر اس ادارہ اور ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عامر عزیز کی ایک اہم ساکھ بھی ہے۔ جو لوگ اس ادارے کو اپنے عطیات دینا چاہیں تو وہ ''گھرکی ٹرسٹ ٹیچنگ اسپتال HBL کی برانچ باٹا پور میں اکاونٹ نمبر 0522000738-7603 پر کرسکتے ہیں یا ان سے 042-111-348-348 پر بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ گذشتہ سترہ برسوں سے پنجاب سمیت دیگر صوبوں کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں بچوں اور بچیوں کو بنیادی اور بہتر تعلیم دینے کے عمل میں پیش پیش ہے۔ اس ادارے نے ملک بھر میں اب تک 340 اسکولوں کا نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے، جہاں تقریبا 51,000 بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ یہ ادارہ مختلف لوگوں کی مدد سے ان اسکولوںمیں پڑھنے والے 25000 بچوں اور بچیوں کو تعلیمی سہولیات، وظیفہ، کتابوں کی فراہمی، یونیفارم، اسکول بیگ، اسٹیشنری اور کاپیوں سمیت دیگر سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر ان پسماندہ علاقوں کے مستحق افراد کی مدد کرتا ہے جو معاشی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔
ادارے کے بقول ایک بچے کے ماہانہ اخراجات ایک ہزار روپے ہیں، مجھے اس ادارے کے مختلف اسکولوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور جس انداز سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کم وسائل کے باوجود بچوں اور بالخصوص بچیوں کو جو دنیاوی اور دینی تعلیم کی سہولتیں فراہم کررہا ہے، وہ واقعی قابل دید ہے۔ جو لوگ اس ادارے کو عطیات دینا چاہیں وہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، بینک الحبیب، اکاونٹ نمبر 0007-0081-047153-01-4 برانچ نیو گارڈن ٹاون لاہور کو دے سکتے ہیں۔یہ تو محض چار ادارے ہیں، اسی طرح کے لاتعداد ادارے آپ کے اردگرد بھی موجود ہونگے۔
اس لیے وہ لوگ جو صاحب حیثیت ہیں اور واقعی انسانیت کی بھلائی بلاتفریق چاہتے ہیں وہ اس عمل میں خود بھی شامل ہوں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ اپنا حصہ ان اداروں کو دے کر دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے لیے اچھائی کا عمل پیدا کریں۔ اخوت، گھرکی ٹرسٹ، پی او بی اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے ادارے ریاستی اور حکمرانوں کی غفلت اور غلط ترجیحات کے باعث ہماری ضرورت بھی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر معاشرے میں محروم طبقات کے حق کے لیے اداروں کی تشکیل ہوگی تو اس کا براہ راست فائدہ ان ہی لوگوں کو ہو گا جو آج بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ہمارے ریاستی و حکومتی ادارے زوال پزیر ہیں اور ایسے میں سماجی اداروں کی موجودگی ایک نعمت سے کم نہیں۔
یاد رہے کہ رمضان میں کیے گئے ہمارے بیشتر کام عملی طور پر صدقہ جاریہ ہونگے۔ اس لیے ایسے کاموں میں سرمایہ کاری کرنا بطور انسانیت ہمارا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ اس لیے آگے بڑھیں اور ان اداروں کو اپنا ادارہ سمجھ کر ان کی سرپرستی کر کے اس تاثر کو اور تقویت دیں کہ پاکستانی معاشرہ اپنی بیشتر خرابیوں کے باوجود کمزور لوگوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا جذبہ رکھتا ہے۔