تعلیم کے لیے کچھ کر ڈالو…

ملک میں اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر سطح پر مختلف نوعیت کے بحران ملیںگے۔


مجاہد حسین July 07, 2014

ملک میں اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر سطح پر مختلف نوعیت کے بحران ملیںگے۔ کہیں کرپشن کا بازار گرم ہے تو کہیں عوامی مسائل کے انبار دکھائی دیں گے۔ توانائی کا بحران ایک الگ حیثیت رکھتا ہے جب کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے الگ محاذ قائم کیا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے بات کی جائے تو وہ اس تمام تر صورتحال کی ذمے دار حکومت کو ٹھہراتی ہیں اور حکومت اسے ملک میں جمہوریت کے نہ پنپنے کو وجہ قرار دیتی ہے۔

عوام کو مسائل کے حل کا جھانسا دینے والے سیاست دان انتخابات کے بعد سے اب تک ایک ہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ ہمیں اختیارت نہیں مل رہے۔ ہرسال بجٹ بننا ہمارے یہاں دنیا بھر کی طرح معمول ہے۔ سرکاری و نجی ملازمین کا ہمیشہ سے ایک ہی شکوہ رہا ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جارہا۔ تاجر برادری کو ٹیکسوں میں اضافے کی شکایت رہتی ہے۔ ہر سال خسارے کا رونا رویا جانا بھی نئی بات نہیں، پھر بھی اعلیٰ قیادت کے غیر ملکی دورے اور مراعات میں کمی نہیں آئی۔ وزیراعظم ہو یا کوئی اعلیٰ عہدیدار، انھیں جب بھی کہیں جانا ہو پوری کی پوری کابینہ ان کے ہمراہ ہوتی ہے، اس کے علاوہ وی آئی پی پروٹوکول تو ہر آن سایہ کی طرح ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔

ملک میںجمہوریت ہمیشہ ڈی ریل کی گئی اس میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی لیکن یہ بات بھی مدنظر رکھی جائے کہ تمام جمہوری ادوار میں سوائے محاذ آرائی کے کوئی اور کام بھی ہوا۔ مثال کے طور پر کیا پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے جو ملکی معیشت کو سہارا دینے میں معاون ثابت ہوتے اور ملک میں جاری توانائی کے بحران میں کمی کا باعث بنتے۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی باتیں کی گئیں لیکن اس کے لیے کبھی بھی موثر یا پائیدار ذرائع پیدا کیے گئے؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسے جواز بناکر ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا، عیاشی کی گئی اور پھر اس کا وبال عوام پر ڈال دیا گیا۔

ہر جمہوری دور میں حالت یہ رہی کہ جمہوری ادارے تک مضبوط نہ ہوسکے۔ بلدیاتی نظام جو عوامی مسائل کے حل کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے یہ کسی بھی جمہوریت پسند دور میں فعال نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںجس قدر عوام کے فلاح و بہبود کے جو کام ہوئے سو ہوئے اس کے بعد سوائے محاذآرائی، خوردبرد، کرپشن و کمیشن اور اقربا پروری کے کچھ نہیں ہوا۔ بھٹو دور میں تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اہم فیصلوں پر عملدرآمد ہوا اور لاتعداد نجی اسکولز نیشنلائز کیے گئے جب کہ 1995 میں ان اسکولوں کو ڈی نیشنلائز کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے یعنی بجائے تعلیمی نظام میں بہتری کے، اسے پستی کی جانب دھکیل دیا گیا۔

پاکستان میں تعلیم ایسا شعبہ ہے جسے ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ ہمارے خیال میںاس کی بنیادی وجہ اس سے آمدنی کا نہ ہونا ہے، حالانکہ اقوام کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد تعلیم کی بدولت ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں تعلیم کے لیے کبھی سیاسی سوچ نے جھرجھری نہیں لی۔ ملک میں ہر انتخاب کے موقع پر جہاں دیگر معاملات پر توجہ کی بات جاتی ہے وہیں تعلیم کا شعبہ بھی زیر بحث ضرور آتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت طلبا کو اپنی طاقت کا سرچشمہ گردانتی ہے اور جوں ہی اقتدار حاصل ہوتا ہے طلبا کھوٹا سکہ بن جاتے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر اساتذہ ایک لا یعنی کردار دکھائی دیتے ہیں اور تعلیمی ادارے محض وقت گزارنے کی جگہ بن جاتے ہیں، جہاں قوم کا مستقبل پروان چڑھنے کے بجائے تباہی کے دہانے کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ میں تعلیم کے لیے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جسے انقلابی تصور کیا جائے۔ اس وقت ملک بھر میں کئی گھوسٹ اسکولز اور اساتذہ موجود ہیں، جہاں فنڈز کا بھرپور ضیاع کیا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کاغذی کارروائیوں میں اسکولز کام کررہے ہیں، بچے پڑھ رہے ہیں جب کہ صورتحال یہ ہے کہ کوئی اسکول قائم ہے، نہ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، بلکہ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں اور اعلیٰ حکام اس میں سے اپنا حصہ بغیر کسی محنت کے وصول کررہے ہیں۔

اگر کہیں حقیقی طور پر اسکولز کام کررہے ہیں تو وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، فرنیچر، درسی کتب سے لے کر اساتذہ کی کمی جیسے کئی مسائل درپیش ہیں۔ اساتذہ کی غیر حاضری ان سب میں سب سے اہم ہے، لیکن حکومتی سطح پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے اس کے تدارک کا کوئی بندوبست نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر فنڈز لیے جارہے ہیں لیکن ان کا استعمال کہاں ہورہا ہے اس کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ رقم ملک میں پسماندگی کے خاتمے کے لیے بروئے کار نہیں لائی جارہی۔

سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں کہ جو ملک میں تعلیم کے فروغ کا باعث بنیں اور طلبا سے لے کر اساتذہ تک تمام افراد کے اطمینان کا ذریعہ ہوں۔ اس وقت سب سے زیادہ مسئلہ اساتذہ کو مراعات کا حصول ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھیں معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں جس کا وہ تصور کرتے ہیں اور حکومتی سطح پر اس کا ادراک کیا جاتا ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ، میڈیکل کی سہولیات سمیت کئی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے جب کہ ایک عام مل مزدور کو تمام بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ احساس محرومی کا شکار ہیں اور معاشرے کی تنزلی کی بھی اہم وجہ ہے کیونکہ اس صورتحال میں وہ ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

حال ہی میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اس قدر سرمایہ نہیں ہے کہ وہ اساتذہ کے تمام مسائل حل کرسکیں، اگر وہ ایسا کرنے بیٹھ گئے تو طلبا کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اب ایسی صورتحال میں جب حکومت کے پاس روپیہ بھی کم ہے اور اساتذہ بھی احتجاج کررہے ہیں تو مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی اختیار کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ دور تعلیم کا دور ہے اور جن قوموں نے اس سے روگردانی کی وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گی اور پھر غلامی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے لیے ہمیں اور حکومتی اداروں کو تعلیم کے فروغ اور اپنی خودمختاری کے لیے کچھ کرگزرنا ہوگا جس کے لیے قربانیاں دینا ناگزیر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں