آئی ڈی پیز قوم کے ہیرو ہیں…

حکومت نے واضح احکامات دیے ہیں کہ امدادی کاموں کو نہایت ذمے داری اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے...


مزمل عباس August 09, 2014

SUKKUR: یہ 15 جون کا ایک گرم دن تھا جب ہماری سکیورٹی فورسز نے ضرب عضب کے نام سے شمالی وزیرستان ایجنسی میں شرپسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا جس میں سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا جب کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر علاقہ خالی کرنا پڑا۔

ایک طرف جہاں سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو اپنا ہدف بنا رہی ہیں، سول انتظامیہ نے آئی ڈی پیز کی بحالی کے انتظامات کرنا شروع کر دیے۔ وزارت مملکت اور فرنٹیئر ریجنز (ایس اے ایف آر او این) فی الفور ان لوگوں کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کا محور بن گئی۔

لیکن یہ ایک عام نوعیت کا کام نہیں تھا۔ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہونے والوں کی اب تک رجسٹریشن کی جا چکی ہے۔ اگرچہ سیفرون کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کو مطلع کر دیا گیا کہ بے گھر ہونے والے افراد کی حتمی تعداد کا علم نادرا سے ان کی تصدیق کے بعد ہی ہو سکے گا اور یہ تعداد بہت زیادہ ہو گی۔

اگرچہ یہ کام بہت بڑا ہے تاہم حکومت کی پوری مشینری وزیر اعظم کی ہدایات کے تحت بے گھر ہونے والے خاندانوں کو ہر ممکن سہولت پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہے۔

بے گھر ہوجانا ہمیشہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے اور گرمی کی انتہائی شدت کے دنوں میں ایسا کرنا اور بھی زیادہ کٹھن ہو جاتا ہے اور اگر اس دوران ماہ رمضان مبارک بھی آ جائے تب کسی کے کردار کی بلندی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے بے گھر فیملیوں کو ہر ممکنہ حد تک سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

وفاقی حکومت نے آئی ڈی پیز کے لیے چھ ارب روپے کی رقم خرچ کی ہے اس پر مستزاد یہ کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پاک فوج نے ان کے بچوںکے لیے اپنی ایک دن کی تنخواہ نذرانے کے طور پر دیدی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بنوں میں آئی ڈی پیز کیمپ کے دورے کے موقع پر اعلان کیا کہ ہر فیملی کو چالیس ہزار روپے پہلے مہینے کے دوران ملیں گے جس میں بیس ہزار روپے کا خصوصی رمضان پیکیج بھی شامل تھا۔ بعدازاں وفاقی حکومت ہر فیملی کو بارہ ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے امداد دے گی۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان کے لیے تین ہزار روپے ماہانہ کا کرایہ مکان اور پانچ ہزار روپے ایک وقت کی ریلیف کے طور پر دینے کا اعلان کیا۔ حکومت پنجاب نے ہر فیملی کے لیے سات ہزار روپے ماہانہ الائونس دینے کا اعلان کیا۔ تمام بے گھر ہونے والے خاندانوں کو کم از کم ایک مہینے کا راشن بھی دیا گیا۔

فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) نے ایک موبائل کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے امدادی رقوم کو شفاف انداز سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا جس کو عوام کی طرف سے بے حد سراہا گیا۔

مقامی رسوم و رواج کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے عوام کیمپوں میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر خاندانوں نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہائش رکھنا یا کرائے کا مکان حاصل کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔ زیادہ تر خاندان کے پی کے میں ہی مقیم ہیں۔

چند خاندان کیمپوں میں بھی رہ رہے ہیں اور کچھ اسکولوں کی عمارات میں جن کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور باہر سے آنے والے ہر فرد کو پولیو ویکسین بھی دی گئی ہے۔

ان لوگوں کے ساتھ آنے والے مویشیوں اور لائیوسٹاک کے لیے بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک اور ٹانک میں موبائل ویٹرنٹی کلینک قائم کیے گئے ہیں جو ان مویشیوں کو موسمی اور وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئی ڈی پیز کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اسلام آباد کے پمز اسپتال میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں جس کو بنوں کے ڈسٹرکٹ اسپتال کا کنٹرول بھی دے دیا گیا ہے۔ دو موبائل اسپتال جن میں چھ بیڈز ہیں، آپریشن تھیٹر، ایکسرے مشینیں اور ایک لیبارٹری بنوں میں قائم کردی گئی ہے۔

حکومت نے واضح احکامات دیے ہیں کہ امدادی کاموں کو نہایت ذمے داری اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایم ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل جن پر براہ راست امدادی کاموں کی نگرانی کی ذمے داری عائد تھی انھیں فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کی بنا پر وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے بزرگ اور نامور افراد نے اپنے آبائی علاقے میں شرپسندوں کے خلاف حکومت کے فوجی آپریشن کی ستائش کی ہے کیونکہ اس طرح اب وہ اپنے علاقے میں آزادانہ طور پر زندگی بسر کر سکیں گے۔ مقامی قبائلیوں نے مسٹر بلوچ کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات میں انھیں حکومت کے لیے ہر ممکن حمایت و تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ ان شرپسند عناصر نے ان کے علاقے کے عام لوگوں کو کئی سالوں سے اپنا یرغمال بنا رکھا تھا۔ فقیر آف لپی کے بھائی کے پوتے نے جو کہ ایک جرگے کی سربراہی کرتا ہے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان کے عوام پاکستان میں قیام امن کے لیے تمام مشکلات جھیلنے کو تیار ہیں اور حکومت سے درخواست کی کہ ان کے علاقے کو شرپسندوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے اور ان کی دوبارہ وہاں واپسی کو بھی ہمیشہ کے لیے ناممکن بنا دیا جائے۔

بعض لوگوں نے جن کی معلومات درست نہیں ہیں حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ڈی پیز کی بحالی کے انتظامات فوجی آپریشن سے پہلے کر لیے جانے چاہیے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ اس سے آپریشن ضرب عضب کا خفیہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔

آپریشن ضرب عضب کے چار مراحل ہیں (الف) دہشت گردوں کو الگ کرنا، (ب) ان کے خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنا، (ج) تباہ ہونے والے گھروں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرنا، (د) اور بے گھر ہونے والے افراد کو ان کے گھروں میں ازسرنو آباد کرنا۔

ان مراحل کی کامیابی کی تکمیل وقت لے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے علاقوں کو تمام شرپسندوں سے مکمل طور پر پاک کرنے اور بے گھروں کو واپس آباد کرنے میں کم از کم چار سے چھ ماہ کا وقت لگے گا۔ فی الوقت حکومت اس علاقے کی ضرورتوں کا اندازہ لگا رہی ہے اور کم مدتی اور طویل المدتی منصوبے تیار کر رہی ہے۔ قبائلی علاقے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے ریاست پاکستان کے ساتھ قبائلی علاقوں کے ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہو گی۔

بے گھر ہونے والے خاندانوں کی مدد اور دیکھ بھال صرف ریاست کی ہی ذمے داری نہیں ہے بلکہ یہ فرض ہر پاکستانی شہری کا ہے کہ وہ اس مصیبت کے موقع پر ان بے گھروں کی جو ممکن ہوسکتا ہے مدد کرے۔ ان لوگوں نے ملک میں قیام امن کے لیے اپنے گھربار کی قربانی دی ہے۔ ان کی اس قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی بہترین طریقے سے مدد کی جائے جب تک کہ وہ اپنے گھر سے باہر رہتے ہیں۔ حکومت بہت کچھ کررہی ہے لیکن پاکستان کے عوام کو بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ آج ہماری قوم کو ردا نواز کے جذبے کو اپنانا چاہیے۔ یہ گوجرانوالہ کی وہ لڑکی ہے جس نے ایس ایس سی (میٹرک) کے امتحان میں حاصل کیے جانے والے اپنے تعلیمی وظیفے کی رقم آئی ڈی پیز کے نام کر دی ہے۔

شمالی وزیرستان کے بے گھر ہونے والے لوگ قوم کے ہیرو ہیں۔ انھوں نے قوم کے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا ہے لہٰذا تمام سیاسی پارٹیوں اور تمام مکتبہ ہائے فکر کے نمایندوں کا فرض ہے کہ وہ اس موقع پر کامل یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں اور حکومت کی کوششوں کی حمایت کریں جو وہ ان بے گھروں کی بحالی کے لیے کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے