پاکستان ایک نظر میں جمہور کی مخالف جمہوریت نا منظور

یہاں تو خاندانی سیاسی پارٹیاں،خاندانی حکومتیں کا راج ہے اور انتخابی عمل ڈنڈے، اسلحے اور چوردروازوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔


عاقب علی September 04, 2014
جمہوریت نظام کی درستی کا دارو مدار اب صرف اس بات پر نہیں کہ پارلیمنٹ بچ جائے، دھرنا دینے والے گھروں کو لوٹ جائیں بلکہ اس پر ہے کہ سیاستدان حقیقت میں پرفارم کریں اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوششیں کریں۔ فوٹو: فائل

آزادی و انقلاب دھرنوں کی کرامات دیکھئے، جمہوریت کا نام لے کر دکانیں چمکانے والے تمام ہی لوگ اکھٹا ہوگئے۔دو روز سے جمہوریت سے محبت،وزیراعظم کے عزم، حکومت اور اپوزیشن سے پارلیمنٹ کے ساتھ قربتوں کا تذکرہ ہورہا ہے ۔ اس دوران کچھ دل جلوں نے بڑے ہی مہذب انداز میں حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کو جلی کٹی بھی سنا دیں اور حکومت نے بھی سن لیں کہ چلو ابھی ہم پھنسے ہیں تم کہہ لو اور ہم سن لیتے ہیں۔اور میں توقع رکھتا ہوں کہ آج تیسرے روز بھی آپ نے اور ہم نے جمہوریت ، ملک،پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی حمایت اور عمران ، دھرنے ، لانگ مارچ ، طاہر القادری کے خلاف بہت کچھ سنا۔

پارلیمنٹ اور جمہوریت کیلئے گھنٹوں لفظوں کا جال بننے والے یہ سیاستدان کیا بتاسکتے ہیں کہ اس جمہوری نظام نے عام پاکستانی کو کیا دیا؟۔ اعتزاز احسن،مولانا فضل الرحمن،چوہدری نثار ، اسحاق ڈار،حاصل بزنجو،محمود خان اچکزئی،آفتاب شیرپاؤسمیت تمام ہی اراکین اسمبلی نے وہ ثمرات تو ضرور حاصل کرلیے ہونگے جو اس نظام سے یقیناًانہیں ملتے ہیں۔پچھلی اسمبلی کے 342اراکین قوم کو 8 ارب روپے کے اخراجات میں پڑے تھے جبکہ سینٹ اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات الگ ہیں۔ ان میں کرپشن اور مفاہمت کے نام نوازنے کے واقعات شامل نہیں ،جن میں خرچ ہونیوالی رقم کی نا حد نہ حساب۔ میں اس ساری بات پر یہ کہوں کہ جناب اعلیٰ آپ سب اگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کے گن نہ گائیں گے تو کیا کرینگے۔ایک عام آدمی جو بے امنی،بیروزگاری، بجلی کی لوڈشیڈنگ،صاف پانی کی عدم دستیابی ،گیس کی قلت،مہنگائی سمیت دیگر کئی مسائل کا شکار ہے، ان مسائل کے حل کے لیے موجودہ یا پھر گزشتہ حکومتوں نے آخر کیا ہے؟۔

مجھے بتائیں کیاآپ سب میں اتنی قوت ہے کہ اپنی عالی شان رہائش گاہوں سے نکل کر اس بنیادی تنخواہ میں ایک ماہ بسر کریں جو آپ ہی جیسے اراکین نے عام پاکستانی کیلئے مقرر کردی ہے۔اگر آپ ایک ماہ بھی ایسی زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ بھی ،آپ کا دعویٰ جمہوریت بھی اور پارلیمنٹ سب ہی سچے ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے یقیناًجمہوریت ہی بنیاد پر تعمیر کا سفر جاری رکھا۔میں بھی چاہتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوری نظام اور رویہ پروان چڑھے ، مگر یہاں تو خاندانی سیاسی پارٹیاں، خاندانی حکومتیں کا راج ہے اور انتخابی عمل ڈنڈے، اسلحے اور چور دروازوں سے لوٹ لیا جاتا ہے، اور پھر سب ہی مل بانٹ کر عوام کے ٹیکسوں پر 5برس کی طویل پکنک پارٹی انجوائے کرتے ہیں۔

محترم اراکین پارلیمنٹ آپ اور میں عمران خان، طاہر القادری کے دھرنے اور اس سے پیدا تشدد کی لہر، تھرڈ ایمپائر کا چھپ کر معاون و مددگار کا کردار ادا کرنااور اس جیسے کئی معاملات کو برا کہہ سکتے ہیں،ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں ،لیکن کیا ہم اس بات کا اقرار کرسکتے ہیں کہ ہم بنیادی مسائل 67برس بعد بھی درست نہیں کرسکے،آپ پھر کہہ دینگے کہ یہاں جمہوری نظام رہا ہی کتنے برس ہے؟، آمریت نے جمہوری سوچ اور رویے پنپنے ہی نہیں دئیے،آپ کا یہ کہا بھی سچ پر کیا آپ ہی کے قبیلے کے وہ سیاست دان قابل گرفت نہیں جنہوں نے ہمیشہ آمریت کو اپنے کندھے دئیے؟۔ کیا آپ کے قبیلے کے اہل افراد نے ان کا ناطقہ بند کیا؟۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس جمہوریت نظام کی درستی کا دارو مدار اب صرف اس بات پر نہیں کہ پارلیمنٹ بچ جائے، دھرنا دینے والے گھروں کو لوٹ جائیں بلکہ اس پر ہے کہ سیاستدان حقیقت میں پرفارم کریں، عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے لیعت لعل سے کام نہ لیں، اپنے لہجے کے غرور و تکبر کو ٹھنڈا کریں اور لفظی نہیں عملی حد میں خود کو عوام کا خادم بنائیں تاکہ آپ کی دال روٹی بھی چلے اور عام پاکستانی کا چولہا بھی بجھنے سے محفوظ رہے۔اور جان لیں یہ آپ کے پاس آخری موقع ہے،اس بار پر فارم نہ کیا تو عمران و طاہر القادری سے زیادہ سخت لہجے اور مزاج کے رہنما اپنے پیروکاروں کے بڑے ہجوم لے کر آپ کی دہلیز پر دستک دینگے ، آپ خود کو لان میں محفوظ سمجھیں گے نہ کمرے میں اور نہ ہی پارلیمنٹ لاجز میں،آپ ان سرپھروں سے پھر صرف ایک ہی سوال کرینگے بھائی میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔ اور اس کا جواب کچھ نہ ہوگا۔ یہ تو صرف منظر کشی ہے۔ لیکن کبھی سوچیے گا کہ جمہور کی مخالف جمہورت کیا چل سکتی ہے؟ اور اگر یہ جمہور بپھر گیا تو کیا آپ کا کلف لگا کاٹن اور لندن سے منگوایا ہوا تھری پیس سوٹ کس صورت میں بچے گا ؟؟؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں