SHARJAH:
عجیب نفسیاتی عورت ہیں آپ۔ نجانے کون لوگ ہیں جو ممتا کے قصیدے اور ماؤں کی بےپناہ محبت کے فسانے ہر وقت الاپتے رہتے ہیں۔ مجھے تو آپ سے کبھی بھی سوائے سرد مہری کے کچھ نہیں ملا۔ یا تو وہ تمام لوگ جھوٹے ہیں یا آپ میں ہی کچھ کھوٹ ہے۔ یا پھر میں آپ کا خون نہیں بلکہ لےپالک بیٹا ہوں جو کبھی بھی آپ کی الفت کا حق دار نہیں بن سکتا۔ میں آج پھر دن بھر کا غصہ امی پر چنگھاڑ کر نکال رہا تھا اور وہ روز ہی کی طرح خاموش لیٹی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سن اور بول نہیں سکتی تھیں، مگر مجھے یہ بات کسی بھی طرح ہضم نہیں ہوتی تھی۔ جس سفاکی کے ساتھ وہ میری باتوں پر مسکراتی تھیں، مجھے لگتا تھا کہ وہ سن اور بول دونوں سکتی ہیں مگر صرف مجھے زچ کرنے کیلئے اس طرح خاموشی سے لیٹی رہتی ہیں۔
کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ ایک کھیل سمجھ کرکرتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں غصہ کروں، چلاؤں، اور آخر میں زچ ہوکر روپڑوں اور اس طرح وہ مجھے احساس دلائیں کہ میں اب بھی وہی چھوٹا سا بچہ ہوں جو بات بات پر ضبط کھو بیٹھتا تھا۔ جو ان کی زرا سی ناراضگی پر اس وقت تک رویا کرتا تھا جب تک وہ خود اسے اپنی ممتا کی آغوش میں نہ چھپا لیتیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں اتنا بڑا ہونے کے بعد بھی ان کے ساتھ بچوں ہی کی طرح برتاؤ کروں۔ ان کے آگے پیچھے گھوموں۔ اپنی ہر ضرورت کو ان سے جوڑ کر رکھوں۔ ان کے گلے میں جھولتا رہوں۔ ان سے فرمائشیں کروں۔ ناز دکھاؤں اور لاڈ اٹھواؤں۔ ان کو دیکھتے ہی پہلے جیسا بچہ بن جاؤں۔ مگر امی کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اب میں بچہ نہیں رہا ہوں! اب میں انتیس سال کا جوان ہوں۔
اور یہ چیزیں تو میں نے اس وقت بھی نہیں کی تھیں جب میں واقعتاّ بچہ تھا۔ یہ نہیں کہ مجھے ان سب چیزوں کا شوق نہیں تھا، بات صرف اتنی تھی کہ امی بہت سفاک عورت تھیں۔ ایک تو میرے بچپن میں ہی مرگئیں اور دوسرا جاتے ہوئے میرا بچپن بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔ اوراب، پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی میں ان کی قبر پر بیٹھا انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ ان کی یہ خواہشات فضول ہیں اور چونکہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے چلی گئی تھیں لہٰذا میں چاہ کر بھی ایسے انسان سے محبت نہیں کرسکتا جس کو میں نے اپنے مکمل عقل و ہوش کی حالت میں نہ دیکھا ہو یا جس کے ساتھ میں نے وقت نہ گزارا ہو۔
اور پچھلے چھبیس سال کی طرح آج بھی امی قبر میں لیٹی میری باتیں سن کر ایسے مسکرا رہی ہیں جیسے انہیں میری باتوں کا یقین ہی نہ ہو۔ عجیب نفسیاتی عورت ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔