عورت کیا ہے ؟۔۔۔حواکی بیٹی، گلاب کی ایک شگفتہ کلی اور شفاف پانی کا ایک چشمہ ہے ۔عورت کا دنیا میں پہلا رُوپ ہی رحمت ہے جو بیٹی بن کر سب خاندان کے دلوں پر راج کرتی ہے ، بہن بن کر بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور ماں کا بازو بن جاتی ہے ۔ بیوی ہوتی ہے تو ایک پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی، اورجب وہ ماں بنتی ہے تو اللہ تعالی اُسکا رتبہ اتنا بلند کر دیتا کہ جنت کو اٹھا کر اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے ۔
عورت کے متعلق مفکرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی ہے کسی نے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کہا ،تو کسی نے زندگی کے حسین ترین راز کو عورت کہا ،تو کسی نے قدرت کی تمام خوبیوں کا مجموعہ کہا، عورت کا خمیر وفا ، محبت ایثار و قربانی کے جذبوں سے گندھا ہے ،عورت کو وفاکے نام کی پتلی سے موسوم کیا جاتا ہے ۔عورت بنی نوع کا لازمی حصہ ہے نسل انسانی کی صالح بنیادوں پرنشو ونما کا انحصار اسی کے طرز عمل پر ہے ہمارے مذہب اسلام کو تاریخ انسانی میں یہ منفرد اور ممتازمقام حاصل ہے کہ اُس نے ایک بچی کو اس دنیا میں داخلے کے ساتھ ہی حقوق کی دولت سے نواز دیا۔
مگر آج کی عورت کیا واقعی ایک ذمہ د ار عورت ہیں؟ ہمیں بچپن میں پڑھا یا گیا تھا کہ اسلام نے عورت کو آزادی کا بنیادی حق دیا ہے لیکن یوں نہیں جیسے آج کل کی عورتیں حاصل کر رہی ہیں ، جلسوں میں جلوسوں میں احتجاج میں عورتیں اس طرح شامل ہیں جیسے گھر سے بالکل فارغ ہیں آج کل کم و بیش ہر عورت کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ عورت مرد سے زیادہ عقلمند ہے وہ مردوں کا ہر میدان میں مقابلہ کر سکتی ہیں مرد کو عورت کا وجود تسلیم کرنا ہو گا وغیرہ وغیرہ دنیا میں دو ہی صنف ہیں مرد اور عورت دونوں ہی اشرف المخلوقات ہیں۔آج ہمارے مذہب میں عورت کا جومقام اور عزت ہمارے مذہب میں ہے کسی اور مذہب میں نہیں.اسلام نے بنت حوا اور ابن آدم میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔مرد عورت کو برابر کے حقوق دیئے...... عورت کو لوگ کمزور کہتے ہیں مگر وہ کمزور نہیں وہ اپنے حق کے لئے لڑسکتی ہے
عورت پہلے کیا تھی ایک حقیر شے مگر میرے آقا حضورؐ نے اُسے مردوں کے قدموں سے اُٹھا کر اُس کے پہلو میں بٹھایا آج کی عورت مظلوم ہے مگرتصویر کے دو رُخ ہیں، ان مظلوم عورتوں سے فائدہ اُٹھانے والی بھی یہ عورتیں ہی ہیں این جی اوز کے نام سے یا مدد کرنے کے نام پر. ایک پرانا اور مشہور مقولہ ہے کہ گھر بنانے والی بھی عورت ہوتی ہے اور بگاڑنے والی بھی عورت ہی ہیں۔
آج عورت ہی عورت کی دشمن ہے ،جاب کرنے والی لڑکی یا عورت پر بیجا تنقید اور بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کردار کشی بھی ہمارے محلے کی اور خاندان کی خواتین بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہیں اور اکثر ساتھ کام کرنے والی خواتین بھی اس کام میں پیچھے نہیں رہتیں ۔ اکثر تو اس کا اچھا کام بھی برداشت نہیں کر پاتیں ، آج کے معاشرے میں بہت کم خواتین مثبت کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عورت تو شرم و حیاء کا پیکر ہے، عورت ایک نازک آبگینہ ہے مرد کا کام اُسکی حفاظت کرنا مگر اُس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت چار دیواری میں قید کر دی جائے اُسکی حفاظت مرد پر فرض ہے البتہ مرد کا ایک درجہ اوپر رکھا گیا ہے تاکہ مرد عورت کی نگہبانی کر سکے اور یہ ایک درجہ مرد کے غرور کا نہیں بلکہ آزمائش کا ہے فطرت نے عورت و مرد کی نفسیات میں فرق رکھا ہے عورت میں صبر کا مادہ زیادہ رکھا ہے اور مرد میں فیصلہ کی صلاحیت ، عورت پر گھر کی ذمہ داری ہے اور مرد پر گھر کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری بہت سے لوگوں کو میری رائے سے اختلاف ہوگا لیکن ......؟
شانہ بشانہ چلنے کے شوق میں اتنا آگے مت بڑھیں کہ پلٹنا بھول جائیں خدارا معاشرے کے قوانین کو اپنے ہاتھوں میں مت لیں اپنے تقدس کو پہنچانیں اُس کی دھجیاں مت اُڑائیں اور مرد حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی عورت گھر سے باہر کسی مجبوری کے تحت نکلے تو خدارا اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں کام کرنے والی عورت بھی اُتنی عزت رکھتی ہے جتنی ایک گھر میں رہنے والی عورت، ان خواتین کا خیال رکھنا چاہئے جو گھر سے محض اس لئے نکلتی ہے کہ اپنی فیملی کو کچھ سہولت دے سکیں، ان کو کچھ سپوٹ کر سکیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ سب مرد حضرات برے ہیں یا تمام خواتین بُری ہیں جس طرح پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح سب خواتین یا سب مرد حضرات کو ہم برا نہیں کہ سکتے ،ان سب کا ہم احترام کرتے ہیں . مگر تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے.....؟ہم ترقی یافتہ قوم کی نقل کرتے ہوئے عورت کو پورے حقوق دینے کی بات تو کرتے ہیں عورت کی آذادی اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن جب عورت اپنی محنت سے اس مقام تک پہنچتی ہے تو اس کو برا کہنے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں .ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ہم نادانستہ طور پر خواتین کو ذہنی مریض تو نہیں بنارہے..... '' اللہ ہم سب کو دین فطرت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ''
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔