بات کچھ اِدھر اُدھر کی حال اور مستقبل کا تعلق ماضی سے ہرگز نہیں

اگرآپ نہیں جانتے کہ کہاں سے شروع کروں توخودسے پوچھیں کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ زندگی کا مقصد کیا ہےاور کیا کرنا چاہتا ہوں؟


دنیا کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال کا تعین کرسکتا اورنہ ہی ہمارے مستقبل کو محدود کر سکتا ہے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، اگر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اپنے ماضی کو بھول کر آگے کی جانب دیکھیں۔ فوٹو: فائل

یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ شاید دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال کا تعین کرسکتا اور نہ ہی ہمارے مستقبل کو محدود کر سکتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر آپ ماضی میں کسی پریشانی کا شکار تھے تو مستقبل میں آپ پریشانی میں ہی رہیں گے ، اور نہ یہ ممکن ہے کہ اگر آپ ماضی میں ایک اچھی زندگی گزارہے تھے تو مستقبل میں بھی اُسی طرح اچھی اور پُرسکون زندگی گزاریں گے۔

ماضی میں جو ہوا سو ہوا، لیکن اگر ہم اپنا حال اور اپنا مستقبل اچھا دیکھنا اور گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہمیں اپنے اپنے ماضی سے صحیح معنوں میں آزاد ہونا چاہیے۔ ہمیں مکمل طور پر اپنے حال(موجودہ زمانہ) میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ ممکن بھی ہے اور اگر ہے تو وہ کیسے؟

ماہر فلسفی 'ایلن واٹس ' ماضی کے اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک کشتی کی مثال پیش کرتے ہیں کہ 'کشتی کا منظر ماضی کی طرح ہےجو ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتا ہے لیکن زیادہ وقت گزرنے کے باعث ہمارے ذہن میں دھندلا ہوجاتا ہے۔ کشتی کا منظر یہ تعین نہیں کرتا کہ کشتی کہاں سفر کررہی ہے، اس سےصرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کشتی کہاں ہے'۔

بالکل اسی طرح ہمارا ماضی ہمارے حال کا یا مستقبل کا تعین نہیں کرسکتا نہ ہی ہم اپنے ماضی سے یہ تعین کر سکتے ہیں کہ ہم مستقبل میں کیا کر رہے ہوں گے۔

ایلن واٹس اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ' اپنے موجودہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے ماضی میں جھانکنے سے آپ مکمل طور پر اپنی زندگی پیچھے کی طرف بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ہر وقت اپنے ماضی کے بارے میں سوچنا اور باتیں کرنا حال اور اپنے موجودہ لزندگی کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اس طریقے سے آپ اپنے حال کو نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں'۔

اکثر اوقات ہم اپنے خیالات ، سوچ، اپنے ماضی اور پیسے کی وجہ سے خلفشار کے عادی ہو جاتے ہیں۔ہم سائے کا پیچھا کرتے ہیں اور اپنے آپ سے سچ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔اِس طرح ہم لوگوں کے اُس گروہ سے تعلق کو استوار کرلیتے ہیں جو اپنی زندگی پھنسائے رکھتے ہیں۔ جب ہم دفاع کرنے کی یا اپنے احساسات کو نظرانداز کرنے کی یا جب ہم اپنے آپ سےسچ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ہم اپنے ماضی کو ہمیں کنٹرول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں ہم اپنے آپ کو مکمل پیچھے کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔

یہی وہ منفی سوچ ہے جو اِس وطن عزیز کو ترقی کے سفر پر گامزن نہیں کرسکا کہ آج بھی حکمراںوں سے جب پوچھا جائے کہ آپ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیوں نہیں کرتے تو جواب آتا ہے یہ سب ضیا الحق کی وجہ سے ہوا ہے، یا ہر خرابی کے پیچھے مارشل لا کا ہاتھ ہے ۔۔۔ جناب مان لیا کہ ایسا ٹھیک ہوگا مگر آخر ہم کب تک پرانی باتوں پر روتے رہیں گے اور میں یقینی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب تک پم ماضی میں رہیں گے اُس وقت تک ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر نہیں کرسکیں گے۔

ہمیں اپنی موجودہ زندگی کی اپنے آپ سے وضاحت کرنی چاہیے کہ اب ہم کیا کر رہے ہیں؟ہم کن منصوبوں پر کام کر رہے ہیں؟ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اور اپنے خوابوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے اردگرد کی دنیا کی مدد کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

اگر آپ نہیں جانتے کہ میں کہاں سے شروع کروں تو اپنے آپ سے پوچھیں کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟

اگر آپ ان سوالوں کا جواب جانتے ہیں تو پھر ان نشانیوں پر غور کریں جنہیں آپ اپنی زندگی شروع کرنےکے لیے تلاش کر رہے تھے۔آپ میں سے وہ لوگ جو اپنی بہترین زندگی گزار رہے ہیں، وہ دنیا کے ساتھ اپنی کہانی کا اشتراک کرنے کے بارے میں غور کریں۔ لوگوں کو مثالیں دے کر سکھائیں،انہیں اپنے روزمرہ کے کام دکھائیں۔انہیں دکھائیں کہ آپ کون ہیں اور آپ کیا کر رہے ہیں اور آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو حال میں زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ بااختیار بنانے کے لیے باہمی تعاون کی طاقت کا استعمال کریں اور شایداِس طرح آپ کی کامیابی کسی اور کی کامیابی کا سبب بن جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں