نیوزی لینڈ کیخلاف شکست پاکستان ورلڈ کپ2015ء کا ٹائٹل جیت سکے گا ۔۔۔

پاکستان کسی صورت ورلڈکپ 2015 ء نہیں جیت سکتا۔


Saleem Khaliq December 21, 2014
سٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے کو میگا ایونٹ میں فتح کا پیمانہ نہ بنایا جائے۔۔ فوٹو : فائل

''پاکستان کسی صورت ورلڈکپ 2015 ء نہیں جیت سکتا۔'' قارئین یہ پڑھ کر ناراض نہ ہوں، میں کوئی سیاستدان نہیں جو آپ کو جھوٹی آس دلاؤں کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی، سب کو ملازمتیں ملیں گی، ملک امن کا گہوارا بن جائے گا، میں تو حقائق دیکھنے کے بعد جو محسوس کرؤں اسے آپ تک پہنچا دیتا ہوں، پہلے بھی یہ بات کہہ چکا کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیتنے کو میگا ایونٹ میں فتح کا پیمانہ نہ بنایا جائے۔

اس فتح پر ہم ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے ناقابل تسخیر بن چکے، کسی نے اس حقیقت کا سوچا ہی نہیں کہ کینگروز بعض اہم کھلاڑیوں سے محروم اور روایتی طور پر اسپن پچز پر جدوجہد کرتے تھے، رہی سہی کسر ٹاس ہارنے سے نکل جاتی تھی، اسی وجہ سے وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا، البتہ ٹیسٹ میں یونس خان، مصباح الحق و اسپنرز کی کارکردگی کو نہ سراہنا بھی ناانصافی ہوگی، اس کے بعد کیویز سے مقابلہ ہوا جو عالمی رینکنگ میں ہم سے پیچھے اور کوئی بھی اسے خطرے کی علامت نہیں سمجھتا تھا، ایک ایسی ٹیم سے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں برابری کے بعد ون ڈے سیریز گنوانا لمحہ فکریہ ہے، اس سے ورلڈکپ میں پاکستانی تیاریوں کا پول کھل گیا۔

اگر ہم خود کو فیورٹ ٹیموں میں شامل سمجھتے ہیں تو ذرا ان حقائق کو دیکھ لینا چاہیے کہ رواں برس16 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں صرف 6 فتوحات ہی ہاتھ آئیں، ان میں سے بھی2 افغانستان اور بنگلہ دیش کے خلاف تھیں۔ سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تینوں سے سیریز میں ناکامی ملی۔ بولنگ میں کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2014ء کے سب سے کامیاب بولر شاہد آفریدی نے41 جبکہ محمد عرفان نے 35 سے زائد کی اوسط سے بالترتیب 16 اور15 وکٹیں حاصل کیں، اس سے یہ بات واضح ہے کہ ہمارے بولرز حریف بیٹسمینوں کے لیے خطرہ بننے میں ناکام رہے، بیٹسمین تو کبھی بھی قابل بھروسہ نہیں رہے تھے، سب سے بڑی پریشانی کی بات پیس اٹیک کا غیرموثر ہونا ہے۔

، وہ وقار یونس جن کا نام سن کر حریف بیٹسمین کانپنے لگتے تھے اب بطور کوچ اپنا فن نوجوان پیسرز تک پہنچانے میں مکمل ناکام ہیں، حالیہ سیریز میں 9 وکٹیں لینے والے محمد عرفان میں ضرور دم ہے مگر انور علی اور وہاب ریاض میں سے کوئی بھی میچ ونر نہیں لگتا، فٹنس مسائل نے عمر گل کو کہیں کا نہیں چھوڑا جبکہ سہیل تنویر نجانے کس کی سفارش پر بغیر کسی پرفارمنس کے ٹیم میں آ جاتے ہیں، حالیہ سیریز کے تین میچز میں انھوں نے 125کی اوسط سے ایک وکٹ حاصل کی، انھیں منتخب کرنے والے سلیکٹرز کو بھی برطرف کر دینا چاہیے، اسی طرح وہاب نے تین میچز میں اتنی ہی وکٹیں 57کی ایوریج سے اپنے نام کیں،انور نے2 میچز میں 112 کی اوسط سے 2ہی پلیئرز کو آؤٹ کیا، اب جس ٹیم کا ایسا پیس اٹیک ہو کوئی اس سے کیسے امیدیں وابستہ کر سکتا ہے، ایسے میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ 15لاکھ روپے سے زائد تنخواہ اور مراعات حاصل کرنے والے کوچ وقار یونس کیا کر رہے ہیں؟

اسی طرح سعید اجمل اور محمد حفیظ پر پابندی کے بعد اسپن بولنگ کا تمام تر بوجھ آفریدی پر منتقل ہو گیا۔ انھوں نے حالیہ سیریز میں24کی اوسط سے8 وکٹیں لے کر اپنی اہمیت منوائی، ان کی بولنگ پر رنز بنانا کیویز کے لیے انتہائی دشوار رہا،ٹیم کو دوسرے اسپنر کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے، مینجمنٹ حارث سہیل، احمد شہزاد اور اسد شفیق سے پانچویں بولر کی کمی پوری کرنا چاہتی ہے مگر یہ جوا ہمیشہ کامیاب نہیں رہے گا، کوہلی ، ڈی ویلیئرز اور گیل جیسے بیٹسمین انھیں لائن بھلا دیں گے، کسی حقیقی آل راؤنڈر کو اسکواڈ میں لایا جائے، جس طرح کسی ٹیل اینڈر سے کتنی بھی توقع کر لیں وہ مستند بیٹسمین کی طرح نہیں کھیل سکتا، ایسے ہی نان ریگولر بولر سے ہر وقت کامیاب رہنے کی امید نہیں رکھی جا سکتی، اس کا ایک اوور میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے،سلیکٹرز کو اس بارے میں یقینا سوچنا ہوگا۔

حالیہ سیریز کے لیے ٹیم میں یونس خان کی واپسی ہوئی، انھیں ٹیسٹ میں عمدہ پرفارمنس کا صلہ ون ڈے میں دیا گیا، عوام اور بورڈ کے دباؤ پر چیف سلیکٹر معین خان کو یہ فیصلہ کرنا پڑا، بہت سے لوگ سینئر بیٹسمین کی سنچری کو ذہن میں رکھ کر ان کی اسکواڈ میں شمولیت کو درست قرار دے رہے ہوں گے مگر میں ان سے متفق نہیں، اس سنچری اننگز کے دوران بھی ابتدا میں ان کا کیچ ڈراپ ہوا اور کافی دیر تک خاصی سست بیٹنگ کی، پھر جب سیٹ ہو کر میچ فنش کرنا چاہیے تھا تو وکٹ گنوا دی، اس کے علاوہ دیگر چار میچز میں ان کے محض57رنز ہیں، مگر یونس اب ورلڈکپ تو کھیل ہی جائیں گے، ہمارے ملک میں لوگ بغیر کچھ کیے پوری سیریز نکال دیتے ہیں۔



انھوں نے تو پھر بھی ایک سنچری بنائی ہے،نیوزی لینڈ کیخلاف احمد شہزاد کا کھیل بھی نمایاں رہا مگر سیریز کی دریافت حارث سہیل کو قرار دینا چاہیے، وہ اس بار مختلف روپ میں سامنے آئے اور سب سے زیادہ235رنز بنانے کے ساتھ6وکٹیں بھی لیں، اگر انھوں نے کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھا تو ٹیم کے لیے مفید ثابت ہوں گے، اسی طرح205رنز بنانے والے آفریدی کی بیٹنگ میں میچورٹی نظر آئی، آل راؤنڈر ورلڈکپ میں ٹیم کا اہم ہتھیار ثابت ہوں گے، سرفراز احمد کو نچلے نمبرز پر کھلا کر ضایع کیا گیا،شاید بعض لوگ انھیں کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے، ان سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ذاتی مفاد نہیں ٹیم کو ترجیح دیں، البتہ سرفراز کی وکٹ کیپنگ میں خامیاں نمایاں ہونے لگی ہیں۔

اس سیریز میں بھی انھوں نے کئی مواقع گنوائے، مجھے ڈر ہے کہیں وہ معین خان نہ بن جائیں جو عمدہ بیٹنگ سے تو اکثر ٹیم کے کام آتے تھے مگر وکٹ کیپنگ میں کوئی غلطی کر کے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیتے، انھیں اپنے اصل کام پر توجہ رکھنی چاہیے، ورنہ یہاں لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے جلد ٹیسٹ کی پرفارمنس بھلا دیں گے۔محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی لگ چکی، بیٹنگ میں وہ ایک اننگز کے سوا کامیاب نہیں رہے، یہ ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

البتہ مینجمنٹ کو بھی ان کا ایک نمبر مختص کرنا چاہیے،مصباح الحق کو انجری نے محض2میچز کھیلنے دیے،ایسے میں سب سے زیادہ مایوس اسد شفیق اور ناصرجمشید نے کیا، دونوں کے پاس صلاحیتوں کو ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا جنھیں ضایع کر دیا، اب انھیں ورلڈکپ کے میچز گھر میں بیٹھ کر ٹی وی پر ہی دیکھنا پڑیںگے۔ مصباح الحق اور شاہد آفریدی میں کس کی کپتانی اچھی تھی اس بحث میں پڑنے کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بورڈ کئی بار مصباح کو میگا ایونٹ میں کپتان برقرار رکھنے کا اعلان کر چکا ہے، حالیہ سیریز میں سلیکشن کا یہ حال رہاکہ سال میں مصباح سے بھی زائد رنز بنانے والے فواد عالم کو ڈراپ کر کے کینیا سے غیراہم میچز کھیلنے پر مجبور کیا گیا، جہاں نیتیں ہی صاف نہ ہوں وہاں ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں، اب ورلڈکپ میں کوئی معجزہ ہی پاکستان کو فتح دلا سکے گا۔

ان دنوں پی سی بی کی بے حسی کا بھی خاصا ذکر چل رہا ہے، آسٹریلوی کرکٹر فل ہیوز کی موت پر کیویز سے ٹیسٹ ایک دن کے لیے روک دیا گیا مگر اپنے ملک میں اتنے بچے شہید ہو گئے ، کرکٹ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، کھلاڑیوں نے بھی لواحقین کو لفظی تسلیاں دینے پر اکتفا کیا، اس سے قبل سیلاب زدگان کے لیے بھی معمولی رقم عطیہ کر کے انھوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری تھی، بطور قوم ہم بے حس ہوتے جا رہے ہیں اور بورڈ و ٹیم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔

چوتھا ون ڈے پروگرام کے تحت کرانا بالکل ایسا ہی تھا جیسے کسی کے بھائی کی لاش گھر پر رکھی ہو اور وہ میچ کھیلنے کے لیے جائے، میرا سوال صرف یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ بورڈ کا کوئی اعلیٰ آفیشل انتقال کر جاتا تو بھی کیا میچ پروگرام کے مطابق ہوتا؟ آسٹریلیا نے ایک پلیئر کے لیے ٹیسٹ کئی روز کے لیے موخر کر دیا۔ براڈکاسٹر نہ ہی بھارتی ٹیم نے کوئی اعتراض کیا،ہم کیوی بورڈ، ٹیم اورآئی سی سی کو بلاوجہ ذمے دار قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، درحقیقت یہ سب کچھ قوت فیصلہ کی کمی کے سبب ہوا شہریار خان اب کوئی بھی قدم خود اٹھانے کی ہمت نہیں کر پاتے، کسی دوسرے آفیشل نے بھی ایسا نہ کیا، اور تو اور سانحہ پشاور کی اطلاع آنے کے باوجود لاہور میں کینیا سے میچ بھی مکمل کیا گیا، اس سے دنیا پر بھی اچھا پیغام نہیں گیا،بعض باتیں پیسے سے بڑھ کر ہوتی ہیں بورڈ کو یہ سوچنا چاہیے۔ یو اے ای میں حالیہ سیریز کے دوران کوئی بدنصیب آفیشل ہی دورے سے محروم رہا ہو گا، ذاکر خان اسپانسرز ادارے کے نمائندوں کے ساتھ اکثر ٹی وی پر نظر آئے، پشاور کے شہدا کے سوگ میں خاموشی کی تصویر میں شائقین کے لیے ایک انجانا چہرا عثمان واہلہ کا تھا، اسی طرح سکیورٹی منیجر بھی ہر تصویر میں آگے آگے نظر آتے ہیں، بورڈ کے ان آفیشلز کو خود نمائی سے زیادہ اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے، مگر افسوس اس وقت کوئی ایسا اعلیٰ عہدیدار نہیں جو ان باتوں کا نوٹس لے، ایسے میں صفحے کالے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جو جیسے چل رہا ہے چلنے دیتے ہیں، ویسے بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں