مذہبی دہشت گردی
آیت اﷲ خمینی نے ایرانی انقلاب کو مسلمانوں کا انقلاب قراردیا اور اسلامی انقلاب کودنیا بھر میں برآمد کرنےکاعزم ظاہر کیا۔
راولپنڈی کی قدیم بستی کی امام بارگاہ کے قریب ایک گھر میں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی تھی۔ ایک نوجوان دہشت گرد موٹر سائیکل پر آیا اور گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر سیکیورٹی گارڈ کی مزاحمت پر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ جس کے نتیجے میں 8 افراد شہید اور کئی زخمی ہوئے۔
ادھر 21 ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے موقف کی بعض علماء نے حمایت کردی۔ یوں اب متحدہ مجلس عمل کی کوئی نئی شکل واضح ہوجائے گی۔ پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کے جائزے سے بہت سے حقائق واضح ہوتے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر 1979 سے اس نوعیت کی دہشت گردی نے ریاست کی رٹ کو کمزور کردیا اور پاکستانی معاشرے سے عدم برداشت اور رواداری کا خاتمہ کیا۔
1978 میں اس خطے میں دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ ایران میں عوامی جدوجہد کے ذریعے شہنشاہِ ایران کا تختہ الٹ دیا گیا۔ آیت اﷲ خمینی کی قیادت میں علماء، سیاستدانوں اور دانشوروں کی حکومت قائم ہوئی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران میں علماء کی آمریت قائم ہوگئی۔ ترقی پسند سیاستدان، دانش ور اور ادیب جیلوں میں بند کردیے گئے اور کچھ کو عدالتوں نے پھانسیاں دیں جب کہ کچھ اپنی جان بچا کر یورپ اور امریکا میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
آیت اﷲ خمینی نے ایرانی انقلاب کو مسلمانوں کا انقلاب قرار دیا اور اسلامی انقلاب کو دنیا بھر میں برآمد کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ سعودی عرب کو سب سے پہلے ایران کے انقلاب سے خطرہ محسوس ہوا۔ سعودی عرب کے ساتھ خلیجی ممالک نے ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے سرمایہ کاری شروع کردی۔ اس دوران افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے نور محمد تراکئی کی قیادت میں سردار داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ نور محمد تراکئی نے سود کے خاتمے، جاگیرداروں کی اراضی سرکاری قبضے میں لینے ،عورتوں کی خریدوفروخت پر پابندی اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان اصلاحات سے قبائلی سرداروں کی آمریت ختم ہوجاتی لیکن امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے افغان حکومت کے خلاف مزاحمت منظم کر کے سوویت یونین کے خاتمے کی حکمت عملی اختیار کی۔ امریکی سی آئی اے نے اور جنرل ضیاء الحق نے مذہبی انتہاپسندی کو افغان حکومت اور سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے کے تحت انتہاپسندوں کو پاکستان میں جمع کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی کی گئی۔ ہر سطح پر جنونی مواد شامل کیا گیا۔ صورتحال کا ایک خوفناک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ ملک بھر میں غیر قانونی اسلحے کی بھرمار ہوگئی اور ہیروئن ہر شہر وگاؤں میں ملنے لگی اور کلاشنکوف کلچر قائم ہوا۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سفارت کاروں اور مذہبی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔ بعض صحافیوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار کراچی کی سڑکوں پر ہورہی ہے۔ یہی وقت تھا کہ جب مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں نے عسکری تنظیمیں قائم کیں۔ ان عسکری تنظیموں کے کارکنوں نے مخالفین کو قتل کرنا شروع کیا۔ طالبان حکومت نے انتہاپسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی فوج کی کارروائی میں طالبان حکومت ختم ہوگئی۔ قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خوا میں اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کرنے کے علاوہ عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی جلوسوں پر خودکش حملے ہونے لگے۔
اس کے ساتھ علماء، ڈاکٹروں اور پروفیشنل افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں شدت آگئی۔ مذہبی انتہاپسندوں نے ایک طرف بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی کی کوشش کی تو دوسری طرف عیسائیوں، ہندوؤں اور قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو بھی خودکش حملوں میں تباہ کرنا شروع کیا۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ یوں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ ختم ہوجائے گی کہ علماء نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ اتحاد میں شریک ہیں وہ انتہاپسندوں کو تباہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ مخصوص مدرسوں کے معاملات پر توجہ دی جائے گی، یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
ملک کو مذہبی دہشت گردی کے عنصر سے بچانے کے لیے ریاست کے بیانیہ میں تبدیلی ضروری ہے۔ یہ تبدیلی ریاستی اداروں کی تنظیمِ نو، مدرسوں کو ریگولیٹ کرنے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی، مذہبی چینلز اور نفرت آمیز مواد پر بندش، اسلحے کی رسد کو روکنے، ججوں، وکلاء اور گواہوں کو تحفظ دینے اور جدید ریاست کے قیام سے آئے گی۔ جب مذہبی انتہاپسندی کی جڑیں ختم ہونگی تو لسانی اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی ختم ہوجائے گی ورنہ یہ صدی بھی پاکستانیوں کے لیے غربت، افلاس اور محکومیت کی صدی رہے گی۔