آزادی اظہار ضابطہ اخلاق ضروری ہے
پولیس کے مطابق حملہ آوروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’’ہم نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا‘‘
لاہور:
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گستاخانہ خاکے شایع کرنیوالے سیاسی جریدے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں 10 صحافیوں اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں توہین آمیز کارٹونسٹ جریدے کے چیف ایڈیٹر اسٹیفن کاربونیئر اور دیگر کارٹونسٹ بھی شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ''ہم نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا'' اور وہ اﷲ اکبر کے نعرے لگارہے تھے۔ فرانسیسی ذرایع ابلاغ کے مطابق بظاہر یہ حملہ مسلمان شدت پسندوں نے کیا ہے، یہ گزشتہ 4 دہائیوں میں فرانس میں سب سے خونریز حملہ ہے، حملہ آور آپس میں روانی کے ساتھ فرانسیسی میں گفتگو کررہے تھے اور انھیں فرانسیسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا یعنی وہ فرانسیسی ہی تھے۔
حملے کا شکار ہونے والا فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ایبڈو اسلام مخالف متنازعہ مواد کی اشاعت پر ہی خاصا بدنام نہ تھا بلکہ ماضی میں مختلف سیاسی اور حالات حاضرہ کی خبروں پر طنزیہ تبصروں اور کارٹونز کی وجہ سے بھی کافی متنازعہ رہا اور رسالے کا ایڈیٹر اپنی موت تک پولیس تحفظ میں زندگی گزارتا رہا، اس رسالے کے مخالفین کا دائرہ خاصا وسیع ہے، ایڈیٹر چارلی ایبڈو توہین آمیز خاکوں کا آخری دم تک دفاع کرتا رہا، رسالہ پوپ بینی ڈکٹ کو گارڈز سے جھگڑا کرتے اور سابق صدر نکولس کے بیمار ویمپائر کی شکل میں بھی کارٹون بناتا رہا ہے۔
ایک کارٹون میں قدامت پسند یہودی کو ایک نازی کا بوسہ لیتے بھی دکھایا گیا تھا لہٰذا اس واقعی میں غیر اسلامی عناصر کے ملوث ہونے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا، اس رسالے کو کئی مرتبہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا، طنز و مزاح پر مشتمل اس میگزین نے 1970 میں پیرس سے اشاعت کا آغاز کیا، بائیں بازو کے نظریات کا حامل یہ میگزین دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور شخصیات کا مذاق اڑانے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنتا رہا، اس رسالے نے اسلام، کیتھولک ازم، یہودی ازم اور دیگر مذاہب کو خاص طورپر نشانہ بنائے رکھا۔
رسالے نے 9 فروری 2006 میں سب سے پہلے گستاخانہ مواد شایع کیا جس پر عالم اسلام میں سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا، 3 نومبر 2011 میں میگزین نے دوبارہ توہین آمیز خاکے شایع کیے جو پہلی بار ڈنمارک کے ایک اخبار نے شایع کیے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید رد عمل سامنے آیا اور فرانسیسی حکومت کو 20 ممالک میں حملوں کے خوف سے سفارتخانے بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا، تاہم 2012 میں بھی گستاخانہ حرکت ایک مرتبہ پھر دہرائی گئی، مسلم ممالک نے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن دنیا کے کئی ممالک میں میگزین کی گستاخانہ مواد کی اشاعت و جسارت پر شدید مظاہروں کے باوجود فرانسیسی حکومت نے آزادی اظہار کے نام پر میگزین کو کبھی قابل اعتراض مواد کی اشاعت پر نہیں روکا، میگزین کو کئی مرتبہ فائر بموں کا نشانہ بنایا گیا۔
2011 میں اس کی ویب سائٹ کو بھی ہیک کیا گیا تاہم چارلی ایبڈو نے آزادی صحافت کے نام پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا عمل جاری رکھا، حال ہی میں جریدے نے ایک متنازعہ کتاب کا ٹائٹل بھی اپنے فرنٹ پیج پر چھاپا تھا جس میں 2022 میں فرانس کا حاکم ایک مسلمان کو دکھایا گیا اور یہی جریدہ حالیہ دنوں میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا طنزیہ کارٹون چھاپنے کے سبب عالمی افق پر زیر بحث رہا، میگزین کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے آخری ٹوئیٹ بھی اس کارٹون سے متعلق تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چارلی ایبڈو پر حملے کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے فرانسیسی جریدے پر حملے کے بعد ہی ہسپانوی جریدے نے بھی توہین آمیز خاکے شایع کردیے اور تمام عالم اسلام و مسلم امہ کے احساسات و جذبات کو ایک بار پھر مجروح کیا، ہسپانوی جریدے نے فرانسیسی جریدے سے اظہار یکجہتی کے لیے پیرس کے جریدے کی جانب سے شایع کیے گئے گستاخانہ خاکوں کو ٹوئٹر پر دوبارہ پوسٹ کردیا، اسپین کے ماہنامہ جریدے مینگولیہ کے ایڈیٹر گونزالے بوئے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور آج ہم سب چارلی ایبڈو ہیں۔
میرے خیال سے مغرب و یورپ کو آزادی اظہار کی تعریف نئے سرے سے مرتب کرنی چاہیے، یہ آزادی صحافت نہیں، کسی کے بھی مذہب میں مداخلت یا مذہب و مذہبی رہنماؤں اور بانیوں کا مذاق اڑانا یا توہین آمیز خاکے بنانا اور مسلسل بنانا نیز اس کو آزادی اظہار اور آزادی صحافت کا نام دینا بجائے خود صحافت جیسے عظیم اور ذمے دارانہ پیشے کی توہین ہے، اگر مغرب و یورپ حقیقی معنوں میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کا علمبردار ہے تو پھر وہاں ہولو کاسٹ پر لب کشائی کیوں جرم قرار پاتا ہے کیوں نہیں اس حقیقت پر لکھا اور بولا جاتا ہے، ایک خوف کی فضا کیوں قائم ہوجاتی ہے وہاں؟
لہٰذا واضح ہوتا ہے کہ یہ مغرب و یورپ کی جانب سے آزادی اظہار و آزادی صحافت نہیں بلکہ درحقیقت اسلام، بانی اسلامؐ اور مسلمانوں سے نفرت، بغض و عداوت اور دشمنی کے اظہار کا ایک موثر ترین لیکن قابل اعتراض ذریعہ ہے، جس کے ذریعے آزادی اظہار و آزادی صحافت کے نام پر پوری مسلم امہ کے احساسات و جذبات کو شدید اور بار بار مجروح کیا جاتا ہے جوکہ ہر اعتبار سے قابل اعتراض ہے، جسے فی الفور بند کیا جانا چاہیے اور اس ضمن میں مکمل اور واضح ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جانا چاہیے جس کی رو سے تمام مذاہب اور ان کے بانیوں کو قابل احترام قرار دینا اور ان کے خلاف زہر اگلنے اور قابل اعتراض مواد کی اشاعت پر قطعی پابندی عائد کردینی چاہیے تاکہ بین المذاہب و بین المسالک تقارب و ہم آہنگی کی راہیں استوار ہوسکیں اور شدت پسندی و انتہاپسندی کو بنیاد فراہم کرنے والے تمام محرکات و عناصر اور ذرایع از خود اپنا جواز کھو بیٹھیں، اور دہشت گردی کے جواز کے خلاف حجت تمام ہوجائے، لہٰذا ترکی نے بالکل درست زور دیتے ہوئے کہاکہ ''یورپی یونین اسلام مخالفین کے خلاف بھی کارروائی کرے''۔
چارلی ایبڈو مختلف مکاتب فکر اور سیاسی، سماجی و مذہبی شخصیات کی نظر میں بھی ایک متنازعہ جریدہ رہا ہے، لہٰذا اس پر حملے کے پیچھے غیر اسلامی طاقتیں بھی کارفرما ہوسکتی ہیں، تاہم ابھی تک الزامات کی بوچھاڑ اسلامی انتہاپسندوں اور شدت پسندوں پر ہی ہر چہار سو ہو رہی ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی مشکلات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوگیا ہے، ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے جوکہ کسی صورت مناسب نہیں، ایک عام مسلمان شدت پسند نہیں ہوتا اور مسلمانوں کا وہ خاص انتہاپسند طبقہ جس نے دشمنان اسلام کی ظلم و نا انصافیوں کے سبب ہتھیار اٹھائے اور بطور ردعمل صف آرا ہوئے اس کے ذمے دار بھی خود مغرب و یورپ ہی ہیں۔
مغرب و یورپ میں انسانیت کے نام نہاد علمبردار بھلا یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخر وہ کیا بدترین حالات ہیں جن کی بدولت ایک امن پسند قوم کہ جس کے مذہب کی اصل بنیاد اور فلسفہ و تعلیمات کا حقیقی مقصد ہی امن و سلامتی ہے بھلا کیوں آخر اپنے تن من دھن کو قربان کررہی ہے، آخر کیوں جان کی بازی لگانے، غرض کسی بھی قربانی سے بھی دریغ نہیں کر رہی؟ پھر کیوں نہ ان بے چارے مسلمانوں پر ہی برق گرانے کا سلسلہ بند کیا جائے، مظالم، حق تلفی و نا انصافی و زیادتی کا کلی خاتمہ کیا جائے۔
ان حالات کا بھی سدباب کیا جائے جو کسی بھی غیرت مند قوم میں قدرتی و فطری طور پر عظیم ردعمل کا سبب بنتے ہیں، جیو اور جینے دو کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہا جائے، ایک دوسرے کے مذہبی بانیوں اور رہنماؤں کے احترام کو ہر حال میں ایک مکمل ضابطہ اخلاق ترتیب دے کر یقینی بنایا جائے، بالغ النظری اور وسیع القلبی سے کام لیتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت فطری و قدرتی اور اخلاقی اقدامات اٹھائے جائیں۔
بین المذہبی و بین الثقافتی تقارب و ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا جائے اور نہ صرف امن بلکہ دائمی امن کے قیام کے لیے عالمی سطح پر موثر ترین اقدامات کیے جائیں جو کسی خاص مذہب یا فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے بلا امتیاز، رنگ و نسل و مذہب تسلی و تشفی کا باعث ثابت ہوں، آزادی اظہار کے لیے جدوجہد کا تعین ہونا چاہیے، اس ضمن میں عالمی سطح پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے، تمام مذاہب کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ آیندہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے خدشات و امکانات معدوم ہوجائیں، اسلام بنیادی اور حقیقی طور پر ایک امن پسند مذہب ہے اور وہ کسی بھی نوع کی دہشت گردی کی کبھی بھی قطعی اجازت نہیں دیتا۔