جب تک سندھو تب تک سندھ

وہ جو کہتے ہیں کہ انفرادی گناہوں سے تو آسمان درگزر کردیتا ہے مگر اجتماعی گناہوں کی سزا قسط وار اترتی ہے


Wasat Ullah Khan February 03, 2015

وسطی ایشیائی آریاؤں سے لے کے انگریز چارلس نیپئر تک سندھ پر جتنے حملے ہوئے وہ یک طرفہ تھے لیکن سندھ کو پہلی بار سہ طرفہ حملے کا سامنا ہے۔یعنی اسٹیبلشمنٹ ، پیپلز پارٹی ( زرداری ) اور مذہبی شدت پسندی کا حملہ۔

اسٹیبلشمنٹ کا حملہ اٹھارہ سو سینتالیس سے جاری ہے جب اگلے نواسی برس کے لیے یہ تالپور ریاست بمبئی پریذیڈنسی میں غائب ہوگئی اور پھر سندھیوں نے اس امید پر پاکستان بننے کے عمل میں ہر طرح سے حصہ لیا کہ ایک مسلمان ملک میں باب السلام کو اس کے علیحدہ ''سب اسلامک کلچر''کے ساتھ سانس لینے کا موقع مل جائے گا اور اسے ماضی کی طرح محض ایک چراگاہ، شکار گاہ اور گذرگاہ نہیں سمجھا جائے گا۔ لیکن ''س'' سے سندھ اور ''س''سے سندھ کا سیدھا پن دونوں ہی سندھ کے لیے مصیبت ہوگئے۔

سن انیس سو چھتیس میں بمبئی پریذیڈنسی سے نجات کے صرف اٹھارہ برس بعد سندھ دوبارہ ایک آزاد ملک کی ون یونٹ دلدلی اسکیم میں اگلے سولہ برس کے لیے غائب ہوگیا ۔ یہ ایک ایسا اجر اور حسنِ سلوک تھا جس نے ان سندھیوں کو بھی علیحدگی کی راہ پر ڈال دیا جنہوں نے تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں شامل ہو کر بیس فیصد غیر مسلموں میں سے بیشتر کو دھرتی چھوڑنے پر مجبور کیا اور نئے بے زمینوں کو گلے لگایا اور یہ سب کام نہایت خوش نیتی اور اخلاص کے ساتھ ہوا۔

مگر اسٹیبلشمنٹ تو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔مغلوں کے آگرہ کی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر اسلام آبادی اسٹیبشلمنٹ تک ہر آنے والا جانے والے کی روایت حکمرانی کو بدلنے کے بجائے آگے ہی بڑھاتا ہے۔ سو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سندھ پر پچھلے تیرہ سو برس سے بصرہ، آگرہ، کابل، بمبئی، دہلی اور اسلام آباد سے حکمرانی کرنے میں کبھی کسی کو مشکل نہیں ہوئی کیونکہ مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول چلانے والے مقامی سیل ہر وقت باآسانی و با رعایت دستیاب تھے اور ہیں۔

ہاں سندھ کو صدیوں پر پھیلی غلامی سے ذہنی و سیاسی طور پر آزاد کرانے اور وسائل کو چند ہاتھوں سے نکال کے بہت سے ہاتھوں میں دینے کا ایک موقع ذوالفقار علی بھٹو نامی ایک مقامی کو ملا ضرور تھا مگر یہ موقع بھی خودداری کے ساتھ جینے کا چلن عام کرنے کے بجائے سیاسی تھیلے میں بھری اقتصادی ریوڑیاں اپنے اپنوں میں بانٹنے اور سندھیوں کو سندھیوں سے اجنبی کرنے کی کوششوں میں ضایع ہوگیا اور مختصر عرصے کے لیے کھلنے والی قسمت کی کھڑکی جانے کب تک کے لیے بند ہوگئی۔

زرعی اصلاحات کم ازکم تین دفعہ پورے ملک میں ہوئیں لیکن اس کے سب سے کم اثرات سندھ پر پڑے۔ صنعتی اصلاحات کم ازکم دو دفعہ پورے ملک میں ہوئیں لیکن ان اصلاحات کے نتیجے میں انسانی و قدرتی وسائل کی کثرت کے اعتبار سے جتنی کم صنعتی ترقی سندھ میں ہوئی شائد ہی کہیں ہوئی ہو۔جو صوبہ پاکستان کا صنعتی انجن کہلاتا تھا وہ اصلاحات کے بعد صنعتی مال گاڑی کے آخری ڈبے میں بدل گیا۔کسی کو یقین نہ آئے تو ایوب خانی دور تک کے لانڈھی، سائٹ، کوٹری اور حیدرآباد کے صنعتی عروج کے زوال کی داستان کسی بوڑھے ورکر سے آج بھی سن سکتا ہے اور چالیس سال سے قائم نوری آباد کے انڈسٹریل زون کی زوالیہ ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔

اب تو اس کی دیوار سے ہاؤسنگ اسکیمیں بھی زبان نکالے جھانک رہے ہیں۔البتہ پنوں عاقل سے کموں شہید تک جو صنعتی انقلاب آیا ہے اسے نیشنل ہائی وے کے دوسرے کنارے پر کھڑا مانہو بس دیکھ دیکھ کے خوش ہی ہوسکتا ہے۔

پھر بھی سندھ مالامال ہے۔اتنی زمینیں بکنے، اتنی بدعنوانی،اتنی اقربا پروری، اتنی ضمیری خرید و فروخت، اتنی تعمیراتی ٹھیکیداری اور اتنی خواب گر بکواس اور اتنی داشتہ گیری و کمیشن ایجنٹی کے باوجود سندھ کا مال ختم ہی نہیں ہوتا۔اگر آج سترہ حملوں میں سومناتھ کا سونا جمع کرنے والا محمود عزنوی زندہ ہوتا تو زرداریوں اور حواریوں کی چلم بھر رہا ہوتا۔

اور جب تعلیم کو سیندھ لگ جائے، شفاخانوں کو دیمک چاٹنے لگے، جب میرٹ کا سر کند چھری سے اڑا دیا جائے، جب جی حضوری کا جھنڈا بلند تر ہو، جب سماجی و سیاسی طوائف الملوکی کا مجرئی جشن برپا ہو، جب دینے والوں کی دیواریں لینے والوں کی سوچ سے بھی اونچی ہوجائیں۔جب فکری دلالی تخلیقی سوچ کے سینے پر چڑھ کے بیٹھ جائے۔جب روزمرہ انتظام بھی ڈیلی ویجز پر چلے۔جب بلیوں کو دودھ کی تقسیم کا کام مل جائے۔جب زندوں پر مردوں کی سفارش سے حکمرانی جاری رہے تو پھر ریاست ہو کہ ریاست کا کوئی یونٹ۔دونوں کی حیثیت گتے کے بنے شاندار فلمی سیٹ سے زیادہ نہیں ہوتی جسے کوئی بھی جنونی آ کے مرحلہ وار اکھاڑ سکتا ہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ انفرادی گناہوں سے تو آسمان درگزر کردیتا ہے مگر اجتماعی گناہوں کی سزا قسط وار اترتی ہے۔جس سندھی وحدت کو پانچ ہزار سال تقسیم نہ کرسکے اسے پچھلے پندرہ سالوں نے تقسیم کردیا۔ایک آخری شے دستار ہی رہ گئی تھی اب اس پہ بھی ہاتھ پڑ گیا ہے۔یہ دستار بھول پن، رواداری، حسنِ سلوک، آنکھ کی شرم، درگاہی انسانیت، ملنگی، مولائیت، نرم خو لہجے، دشمن سے مروت، بے شناخت مہمان داری، خاموش مدد، شعر کی سمجھ اور موسیقی کے پانی سے رنگی گئی تھی۔مگر اب یہ دستار بچانے کا کام بھی ریاست نے اپنے ذمے لے لیا ہے ( خدا خیر کرے )۔

شائد وہ وقت آنے والا ہے جب میں اپنے بچوں کے بچوں کو بتاؤں گا کہ ہمارے زمانے میں ایک ہی قبرستان ہوتا تھا جس میں کوئی بھی دفن ہوسکتا تھا۔بہت سی مسجدیں تھیں جن کے سائے میں مندر بھی کھڑا رہتا تھا۔کئی امام بارگاہیں تھیں جن میں سنی بھی منتیں مانتے اور تبرک لینے آتے تھے۔بہت سی درگاہیں تھیں جہاں درویش کے قدموں میں ہندو بھی گڑنے کی وصیت کرتے تھے اور ان مسجدوں ، امام بارگاہوں، مندروں اور درگاہوں کا دروازہ نہیں ہوتا تھا تاکہ بغیر نام پتے کا مسافر بھی سو سکے۔

حلیے ، زبان اور خیال کے اظہار میں سب مقامی ایک سے لگتے تھے بس نام پوچھنے سے پتہ چلتا کہ یہ مکیش مل ہے ، یہ پیرل بخش ہے اور وہ سید بشیر علی شاہ اور وہ چوہدری بشیر اور وہ رہا غلام قائم خانی۔اور یہاں پر ہندوذاکر بھی امام حسین کی مجلس پڑھتے تھے اور عرس کے موقع پر بھجن منڈلیاں بھی آتی تھیں اور شہباز قلندر کے دربار میں سندھی سے زیادہ پنجابی سنائی دیتی تھی۔میرے ایک خالو شیعہ تھے ، ایک بھابی سنی اور ایک پھوپھی کسی کو نہیں مانتی تھیں۔میرے دادا وہابی تھے مگر جب بھی وہ دوسرے شہر جاتے تو دادی ان کے بازو پر امام ضامن باندھنا نہیں بھولتی تھیں اور دادا بس میں بیٹھتے ہی امام ضامن کھول کے اپنے بستے میں رکھ لیتے اور واپسی پر گھر پہنچنے سے پہلے پہلے پھر باندھ لیتے تاکہ دادی کا دل نہ ٹوٹے۔

اور پھر میں اپنے بے یقین آنکھوں والے بچوںکے بچوں کو یہ بھی بتاؤں گا کہ تمہاری پیدائش سے پہلے تک کوئی شیعہ کافر قرار نہیں پایا تھا۔اور تمہارے ابا کی پیدائش سے پہلے تک کوئی احمدی کافر نہیں تھا اور میری پیدائش سے پہلے تک کسی ہندو کو کافر کہنا بدتہذیبی سمجھی جاتی تھی، بس اسے ہندو بھائی کہتے تھے۔اور شکار پور کے ہندو تو آج بھی بھائی بند کہلاتے ہیں۔

اور پھر میرے بچوں کے بچے مجھ سے پوچھیں گے دادا جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے نا؟ اور میں کہوں گا کہ بالکل بری بات ہوتی ہے۔اور پھر وہ کہیں گے دادا آپ اس عمر میں اتنا جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ بتائیں نا؟ اور پھر شاید میں کچھ بھی نہ کہہ سکوں یا پھر سر جھکا کے کچھ بڑبڑاؤں بھی تو وہ کیسے سنیں گے اور کیسے دیکھیں گے کہ میری آنکھوں سے کیا ٹپک رہا ہے۔مگر یہ وہم تو شائد میری بڑھتی ہوئی عمر سے پھوٹنے والی اداسی کا پھل ہے۔ایسا کچھ نہیں ہوگا۔جو زمین پانچ ہزار سال کی مار سہہ جائے اور پھر بھی کسی کے سامنے سجدہ ریز نہ ہو وہ کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتی۔جب تک سندھو بہہ رہا ہے تب تک سندھ بھی یونہی بہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں