جسٹس بھگوان داس کا آخری سفر
بڑے لوگ بڑے ماحول میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سپوت لاڑکانہ کے ضلع نصیر آباد میں 1942 میں پیدا ہوئے۔
میر تقی میر نے بھی کیا خوب کہا تھا:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
بڑے لوگ بڑے ماحول میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سپوت لاڑکانہ کے ضلع نصیر آباد میں 1942 میں پیدا ہوئے۔ گاؤں کے کھلے آسمان اور نیلی چادر پر سنہرے تاروں اور سفید روشنی والی کا مدار چادر کو بھگوان داس نے رات کو دور تک دیکھا۔ یہ دور بینی انھیں بچپن سے ملی۔ ان کی پیدائش کا موسم بڑے قدآور درختوں کی پیدائش کا موسم تھا۔
ہر طرف سے زندہ باد کی صدائیں، کیا ہندو کیا مسلمان سب ہند کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ دونوں جانب کی اقلیتیں یعنی بھارتی مسلمان اور پاکستانی ہندو جو رہ گئے ان کا خیال یہ تھا کہ کچھ دنوں کا اتھل پتھل ہے پھر سب خیر ہوگا۔ بھارت میں ابتدائی طور پر مسلمان اور پاکستان میں ہندو تھوڑے بہت نشیب و فراز کے علاوہ ٹھیک ہی رہے۔
مگر حالیہ برسوں میں صورت حال میں کشیدگی نظر آئی کیونکہ سیاسی قوتوں کی رِٹ جاتی رہی اور پاکستان بھی انتہا پسندی کی لپیٹ میں رہا۔تقسیم ہند کے بعد ہندو مسلم تنازعات جو حل ہونے تھے وہ حل نہ ہوئے اور سیاسی کشیدگی مذہبی نفرت کا ذریعہ بنی رہی جس کی وجہ سے پاک و بھارت اقلیت تکلیف میں ہی رہی۔ بعض علاقائی تنازعات اکثر اجتماعی اختلافات کا ذریعہ بنے رہے۔ ایسے موقعے پر ایسے روشن خیال لوگوں کوکافی مشکلات سے گزرنا پڑا کیونکہ رانا بھگوان داس بھی باضمیر یا یوں کہیے کہ یہ ضمیرکے قیدی رہے۔ بھگوان داس نے ہمیشہ اپنے ضمیر کی عدالت سے اپنے گھریلو اور دوستانہ معاملات طے کیے۔
ان کی ابتدائی زندگی عبدالمجید سندھی کی سیاسی صحبت میں گزری اس لیے سیاسی نشیب و فراز کو سمجھنے اور سلجھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ نظریاتی اعتبار سے سوشلسٹ خیالات کے حامی تھے اور سوبھو گیان چندانی کی سیاسی زندگی سے خاصے متاثر تھے۔ آپ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بہت غمگین رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ملک کی تقسیم سے عدلیہ کا وقار اور کارکردگی مجروح ہوئی ہے آپ نے پی سی او حلف نہ اٹھایا اور عدلیہ کے وقار کو سربلند رکھا۔ آپ سفارش کو میرٹ کا دشمن قرار دیتے تھے۔
آپ نے اپنے قریبی عزیزوں کو بھی سفارش سے نہیں نوازا۔ گو کہ آپ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہ چکے تھے آپ کلفٹن نمبر 8 پر ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے ٹھاٹ باٹ اور دکھاوے کو ناپسند کرتے تھے۔آپ کو سندھ میں آباد اردو بولنے والوں سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔
وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے مگر آخری دنوں میں ان کی یہ توقع بھی ماند پڑ چکی تھی وہ سندھی اور اردو اسپیکنگ کے بہتر ملاپ کو سندھ کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جب کاوش رضوی نے سندھی اردو سنگت فورم کی ابتدا کی تو رانا بھگوان داس نے اس فورم کی کافی پذیرائی کی۔ چند برس قبل حبیب جالب کی یاد میں ایک جلسہ آرٹس کونسل میں منعقد ہوا تھا۔ غالباً یہ 2013 تھا انھوں نے حبیب جالب کی نظموں پر زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا اور سامعین نے رانا بھگوان داس کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
رانا بھگوان داس محض ایک قانون کے سپاہی نہ تھے بلکہ ان کی زندگی ایمان افروز تھی۔ انھیں اردو ادب سے خاصی دلچسپی تھی آپ کو اردو، عربی پر دسترس تھی آپ قرآن شریف میں انسانی حقوق اور انسانی معاشی مساوات سے کافی متاثر تھے۔ آپ اردو کی ادبی کتب کے فروغ کو بھی سندھی کتب کی طرح فروغ چاہتے تھے ایک مرتبہ اردو زبان کے شاعر کامریڈ کاوش رضوی نے ان کو اپنی نظموں کا مجموعہ ''سرخ دھمال'' کی 5 کاپیاں نذر کیں جس کے عوض جسٹس بھگوان داس نے انھیں 5 ہزار روپے دیے اس پر کاوش رضوی نے کہا جناب یہ تو بہت زیادہ ہیں اس پر رانا بھگوان داس نے فرمایا جناب یہ شاعر کے کلام کے عوض کچھ بھی نہیں یہ تو اعتراف کمال بھی پورا نہ ہوا۔
غالب آپ کے پسندیدہ شاعر تھے ان کو غالب کے سیکڑوں اشعار ہر وقت سننے کا موقع ملا اگر کوئی شاعر کی رعایت سے ان سے ملتا تو واقعی بہت خوش ہوتا۔ کیونکہ وہ اشعار کی کیفیت اور جس کیفیت میں وہ پروان چڑھا ہے جسٹس بھگوان داس اس کو فوراً بھانپ لیتے تھے۔ آپ کو بڑا تعجب ہوگا کہ اردو زبان پر انھیں خاصا عبور تھا۔کیا عجب تھا کہ اگر جسٹس بھگوان داس کی زندگی کا یہ پہلو اگر لوگوں پر آشکار ہوجاتا کہ وہ سخن فہم ہی نہیں سخن شناس بھی ہیں تو شعری اور ادبی محفلوں کے صدر کی حیثیت سے بلائے جاتے مگر ان کی زندگی کے اس پہلو کو لوگوں پر آشکار نہیں کیا گیا۔
ان کی ادبی تحریر کا نسخہ منظر عام پر نہیں دوسرا اہم پہلو یہ کہ تھوڑے سے عرصے میں ارض پاکستان کے دو اہم قوم پرست ہندو برادری کے عظیم فرزند خاک نشین ہوگئے۔ ایک تو سوبھو گیان چندانی دوسرے جسٹس رانا بھگوان داس جنھیں اپنی عزت کا بڑا پاس تھا انھوں نے الیکشن کمیشن کا چیئرمین بننے کے اعزاز کو ٹھکرا کر اپنی عزت کو برقرار رکھا جس پر ان دنوں کاوش رضوی کا کہنا تھا کہ:
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انسانیت کے بھیس میں انساں چلا گیا
جسٹس بھگوان داس کی موت نے ہندو برادری میں غم کی ایک لہر دوڑا دی وہ جہاں ملک کی ایک بڑی شخصیت تھے وہاں اپنی برادری کی بھی ڈھال تھے۔ جسٹس بھگوان داس کے جسد خاکی کو ہندو برادری کی بڑی تعداد کلفٹن کراچی سے لے کر پرانا گولیمار کے شمشان گھاٹ تک لے گئے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
پرانی تہذیب کے نقوش مٹتے جا رہے ہیں اور نئی تہذیب کے عناصر اپنی قوت اور تہذیب رقم کر رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا نئی تہذیب پرانی تہذیب کی خالی جگہ باقاعدگی سے پر کر رہی ہے یا یہاں بھی ہم زوال کی جانب دیگر شعبوں کی طرح روبہ زوال ہیں قوم کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کے لیے لازم ہے کہ سیاست میں ملک کی قیادت کرپشن سے پاک ہو اور عدلیہ انصاف کرے۔ جیساکہ رانا بھگوان داس کرتے تھے۔