جمہوریت پر آمریت کو فوقیت دینے کی نفسیات
انسانی فطرت ہے کہ وہ مشکل بلکہ بدترین حالات میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ مشکل بلکہ بدترین حالات میں بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ مشکل ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے، یہی اس کی بقا کا راز ہے۔ انسان سے دس اور بیس گنا زیادہ بڑے اور قوی الجثہ جاندار کرۂ ارض پر پیدا ہوئے، ان کی ہیبت سے جنگل اور دوسرے جاندار تھراتے تھے لیکن وہ حالات اور ماحول سے مطابقت پیدا نہ کر سکے۔
اسی وجہ سے ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئے۔ اس کے برعکس انسان کی حالات سے مطابقت اختیار کرنے اور انتہائی نامساعد صورت حال سے خود کو ہم آہنگ کر لینے کی صلاحیت جہاں اس کی بقا کی ضمانت ہے وہیں یہ خوبی بسا اوقات اس کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ ہم بطور قوم اور بطور فرد، ان دنوں بعض ایسے مسائل کا شکار ہیں جو ہماری اس خوبی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔
ہم نے 68 سالہ قومی زندگی کے 32 برس فوجی آمریتوں کے سائے میں گزارے۔ کم و بیش 25 برس ایسے گزرے جن میں عوام کے منتخب وزرائے اعظم برسر اقتدار تھے لیکن وہ بااختیار نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جانا چاہیے کہ 57 برس ہم نے کسی نہ کسی شکل میں آمرانہ قوتوں کی محکومی میں بسر کیے ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہم مطابقت پیدا کر لینے کی خلقی انسانی صلاحیت کے باعث گزارنے میں کامیاب ہوئے لیکن ایک مخصوص کیفیت اور صورت حال میں طویل مدت تک رہنے کی وجہ سے ہم میں بعض نفسیاتی، سماجی اور سیاسی رویے پیدا ہونے بھی ناگزیر تھے۔
آمریت میں آمر ہر قانون اور ادارے سے بالاتر ہوتا ہے، اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ حکم اور قلم سے لکھی ہر تحریر قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ آمر کسی آئین یا قانون کے تابع نہیں ہوتا۔ وہ ایسا قانون ساز ہوتا ہے جس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ جب چاہے کسی قانون کو کالعدم کر دے اور جب ضرورت محسوس کرے کوئی نیا قانون بنا دے۔ کسی ایسے سماج میں افراد اور گروہوں کے پاس ترقی کرنے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آمر اور اس کے رفیقوں تک رسائی حاصل کی جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے خوشامد اور فدویانہ رویے سمیت تمام جائز اور ناجائز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ اس فن میں ماہر ہوتے ہیں، راتوں رات ان کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھتا ہے اور سماجی افق پر ان کا نام جگمگانے لگتا ہے۔
آمروں کو نوکر شاہی یعنی انتظامیہ پر بہت انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کا دماغ درست کرتے ہیں اور حامیوں کو نوازتے ہیں۔ نوکر شاہی اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہر افسر خود سر ہوجاتا ہے۔ وہ اوپر والوں کے احکامات بجا لاتا ہے اور ماتحت اس کے احکامات پر بلاچوں و چرا عمل کرتے ہیں۔ جو افراد آمر اور حکمران اشرافیہ تک پہنچ نہیں رکھتے وہ سرکاری افسروں کی خوشامد اور چاپلوسی کو اختیار کرتے ہیں۔
ایسا کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا کیونکہ مالی اور سماجی فوائد کسی اصول، قانون یا ضابطے سے زیادہ سرکاری افسروں کی عنایت اور تعاون کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ آمروں کو تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے غاصبانہ قبضوں کو جائز حیثیت دے اور ان کے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے میں ''قانونی'' سہولت فراہم کرے۔ عدلیہ اس ''تابعداری'' کی قیمت مختلف شکلوں اور انداز میں وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے انصاف جنسِ بازار ہو جاتا ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان میں یہ جملہ عام تھا کہ وکیل کرنے کے بجائے جج کی خدمت کرو۔ سماج میں دانش ور اور اہل قلم بھی اہم مقام رکھتے ہیں، ان کے پاس رائے عامہ کو بیدار اور ہموار کرنے کی بے پناہ طاقت ہوتی ہے۔ آمرانہ دور حکومت میں، آمروں کو ایسے اہل قلم کی اشد ضرورت ہوتی ہے جنھیں وہ مختلف محاذوں پر استعمال کر کے اپنے اقتدار کو دوام دیتے ہیں۔
پاکستان میں 4 آمر آئے اور شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کے ایک مخصوص گروہ کو ان آمروں کی سرپرستی حاصل رہی۔ شاعر عوام حبیب جالب کے بعض اشعار میں ایسے ہی لوگوں کا دلچسپ انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اہل قلم حضرات کا سب سے بڑا گروہ جنرل ضیا الحق کی اس ''ضیافت'' میں موجود تھا جو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت کے فوراً بعد منعقد کی گئی تھی۔
اس تقریب میں مشہور اہل قلم حضرات اور خواتین کی موجودگی میں جنرل صاحب نے جمہوریت پسند اور لبرل لکھنے والوں پر پاکستان کا پانی، اس کی چاندنی اور ہوا بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بڑے بڑے دانشور اور نامور شاعر، ادیب اور صحافی ایک آمر کے یہ توہین آمیز جملے سن کر بھی خاموش رہے تھے اور اس کے بعد آمروں کی تعریف اور توصیف میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے میں بے شمار لوگوں نے عار محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیا کے زمانے سے ہی یہ روش عام ہو گئی تھی۔ اس سے المناک بات بھلا اور کیا ہو سکتی تھی؟
آمریتوں میں ایسی سیاسی، مذہبی، قوم پرست اور مسلکی جماعتوں اور گروہوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جو ان بڑی سیاسی جماعتوں کو کمزور کر سکیں جن سے آمر خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
ہر آمر کے دور میں پاکستان میں اس طرز کی شدت پسند، انتہاپسند اور تشدد پسند تنظیموں کو فروغ حاصل ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اس عمل کا آغاز کیا، ضیا الحق نے اسے کمال کے درجے تک پہنچایا اور آخری آمر نے پاکستان کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں اور دیگر جمہوریت پسند قوتوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایسی تنظیموں کو اتنا طاقتور کیا کہ بالآخر ملک پر ریاست کے بجائے ان کی گرفت زیادہ مضبوط نظر آنے لگی۔
نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک آمریتوں کے زیر تسلط زندگی گزارنے کی وجہ سے ہمارے سماج کے تقریباً ہر طبقے میں سیاسی، سماجی، معاشی حوالوں سے ایک مخصوص نفسیات تشکیل پا چکی ہے جس کا اظہار مختلف انداز سے ہوتا رہتا ہے۔ ملک میں جب بھی جمہوریت بحال ہوتی ہے یا کی جاتی ہے تو اس وقت آمریتوں کے زیر سایہ پرورش پانے اور پروان چڑھنے والے طبقات اور عناصر بہت بے اطمینانی اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ چونکہ آمرانہ ادوار میں جمہوریت کو ایک بہت خراب نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لہٰذا ہر طرف سے جمہوریت کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔
ایک حلقہ کہتا ہے کہ جمہوریت ایک مغربی نظام ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک دوسرا طبقہ یہ دلیل دیتا ہے کہ جمہوریت دراصل سرمایہ داروں کی آمریت کا نام ہے۔ اس نظام کے ذریعے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ دانشوروں کا آمریت نواز گروہ، جمہوریت پر تنقید کر کے یہ اعلان کرتا ہے کہ ملک کو ایک ایسے مرد آہن کی ضرورت ہے جو بے پناہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تمام رشوت خوروں، چوروں، ڈاکوؤں اور مجرموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔
اس ضمن میں مذہب کی جانب جھکاؤ رکھنے والے دانشور اور اہل قلم، ایک امام خمینی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، سیکولر حضرات کمال اتاترک نما ڈکٹیٹر کو مسئلے کا حل بتاتے ہیں اور بائیں بازو سے متعلق لوگ جوزف سٹالن یا ماؤزے تنگ جیسے انقلابی رہنما کو مسیحا قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام اہل قلم مختلف نظریات رکھتے ہیں لیکن ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے بجائے سخت گیر آمر اور آمرانہ نظام کے تسلط کو ہر مسئلے کا واحد حل تصور کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بعد دوسرا بڑا ہدف سیاستدان ہوتے ہیں۔
نصف صدی سے زیادہ مدت تک سیاستدانوں کی برائی سنتے رہنے کے بعد سیاستدانوں کو برا اور غلط سمجھنے کی نفسیات پیدا ہو گئی ہے۔ فوجی آمروں، اعلیٰ افسروں اور سماج کے دیگر طاقتور لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے لیکن سیاستدانوں کو نفرت کا ہدف بنانا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ مجلسی گفتگو، اخباری کالموں، مضامین، الیکٹرانک میڈیا کے مباحثوں اور سوشل میڈیا پر سیاسی کارکنوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما کی جتنی تذلیل (تنقید نہیں) ہمارے ملک میں ہوتی ہے شاید کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔
جمہوریت اور سیاست دانوں کی تضحیک کرنے والوں میں پیش پیش وہ عناصر ہوتے ہیں جنھیں فوجی آمر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا آمرانہ طرز حکومت میں ان کی قدر اور اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کا زیادہ انحصار پارٹی کارکنوںں پر ہوتا ہے لہٰذا وہ ان طبقوں اور حلقوں کی کم پذیرائی کرتے ہیں جو عموماً آمروں کے بہت قریب رہ چکے ہوتے ہیں یا آمریت کو جمہوریت پر فوقیت دینے کی نفسیات رکھتے ہیں۔
پاکستان میں 2008ء کے عام انتخابات کے انعقاد اور آمریت کی پسپائی کے بعد حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ ان انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی مخلوط حکومت نے پاکستان میں پہلی مرتبہ آئینی میعاد مکمل کی۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد نئی جمہوری حکومت برسراقتدار آئی ہے۔
2008ء سے 2015ء تک جمہوریت، پارلیمنٹ اور بالخصوص دو بڑی قومی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ہتک آمیز طرز عمل اختیار کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال پر زیادہ حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ 57 سال تک آمریتوں میں زندگی گزارنے کی مجبوری نے ہمارے اندر جمہوریت کی نفی اور طاقتور افراد سے مرعوب ہونے کی جو نفسیات پیدا کی ہے اسے ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔