جھوٹ میں جھوٹ کی ملاوٹ کا ہنر

تم تو کہا کرتے تھے کہ سیاست یہ ہے وہ ہے اور اپنے سپوت کو اس میں ’’ان‘‘ کر رہے ہو


Saad Ulllah Jaan Baraq April 17, 2015
[email protected]

حیرت ہوئی صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی جب چشم گل چشم عرف قہر خداوندی نے اپنے بیٹے ''عذاب الٰہی'' کو سیاست میں ڈالا، خاص طور پر علامہ بریانی عرف برڈ فلو نے تو اسے قیامت کی نشانیوں سے ایک نشانی قرار دیا کیونکہ قہر خداوندی ہمیشہ سیاست سے نفرت کا اظہار کرتا تھا اور اس کا یہ قول زریں بھی زبان زد خاص و عام تھا کہ کدو کو سبزی، ساڑھو کو رشتہ دار اور سیاسی لوگوں کو ''آدمی'' سمجھنا بے وقوفوں کا کام ہے۔

اس کا پکا پکا عقیدہ تھا کہ اگر اس دنیا سے ''سیاسیوں'' کو نکال دیا جائے تو یہ دنیا ایک مرتبہ پھر فردوس گم گشتہ بن سکتی ہے، لیکن اب اس نے نہ صرف اپنے سپوت عذاب الٰہی کو سیاست میں دھکیل دیا بلکہ باقاعدہ اسے مالی جانی اور خاص طور پر ''زبانی'' طور پر سپورٹ بھی کرنے لگا تھا، سننے میں آرہا تھا کہ وہ اس سے گاؤں کی سطح پر انتخابات میں لڑوانے کے لیے تیار کر رہا ہے اور اس پہلی سیڑھی کے بعد اسے بتدریج سیڑھیاں چڑھا کر بام عروج پر پہنچانا چاہتا ہے۔

جسے وہ پہلے بام خوروج بلکہ بام خرد و بروج کہا کرتا تھا بلکہ جب بہت زیادہ جوش میں ہوتا تو یہ تک کہہ ڈالتا کہ اپنی اولاد کو سیاست میں ڈالنے سے بہتر ہے کہ آدمی خود اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کر دے اور چھری کسی دوسرے سیاست دان پر پھینک دے جس سے اچک کر اس کے کسی چمچے کا بھی خاتمہ کر ڈالے، لیکن اب ہم دیکھ رہے تھے کہ اپنے بیٹے عذاب الٰہی کی باقاعدہ پبلسٹی کر رہا تھا اور بات بات پر اس کی ''عوامی خدمات'' کا قصیدہ پڑھنے لگتا بلکہ کبھی کبھی تو خود کو یوں پوز کرتا جیسے عذاب الٰہی کو سیاست کے بجائے کسی دینی مدرسے میں داخل کیا ہو اور دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہو رہا ہو۔

علامہ بریانی تو ہمیشہ اس تاک میں رہا کرتے تھے کہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی عرف ڈینگی مچھر کوئی ایسا کام کرے جس پر وہ اس کے لتے لے اور منفی پروپیگنڈے کا شکار بنائے چنانچہ وہ آج کل ہر ہر مقام پر قہر خداوندی کو ''کوا'' کہتا ہے جو گند بھی کھائے اور اپنی چونچ بھی جھٹکے، ہم تو ظاہر ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہمیشہمصالحت کا کردار ادا کرتے ہیں اس لیے ایک دن قہر خداوندی کو پکڑ کر پوچھ ہی لیا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔

تم تو کہا کرتے تھے کہ سیاست یہ ہے وہ ہے اور اپنے سپوت کو اس میں ''ان'' کر رہے ہو ، بولا کیا کروں مجبوری ہے اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا، تفصیل چاہی تو مزید بولا، دراصل اس کے لچھن ہی ایسے تھے کہ سیاست کے علاوہ اور کسی بھی فیلڈ میں ان فٹ ہوتا، اس کے بعد ایک پرمغز تقریر بالکل اس انداز میں کی جس انداز میں کچھ عرصہ پہلے بمقام اسلام آباد ''کنٹینری تقریریں'' ہوتی تھیں، کہنے لگا ہمارے ملک میں یہ نہایت ہی غلط رواج ہے کہ لوگ اکثر اپنی اولادوں کو غلط جگہوں پر گھسیڑ دیتے ہیں، بیٹے کا رجحان ڈاکو بننے کا ہوتا ہے اور لوگ اسے ڈاکٹر بنا دیتے ہیں۔

بیٹا ڈاکٹر بننا چاہتا ہے اور والدین اسے لیڈر بنا کر قوم کو دائم المریض بنانے کا کام سکھا دیتے ہیں، بیٹا دکانداری کا رجحان رکھتا ہے اور باپ اسے دینی تعلیم دلاتا ہے، بیٹے کی طبیعت خالص چوروں کی ہوتی ہے اور باپ اسے پولیس میں بھرتی کروا دیتا ہے، میں نے اکثر ایسے ٹیچر دیکھے ہیں جنھیں لوہار ہونا چاہیے تھا یا ایسے دکاندار اور تاجر جو طبعاً جیب تراشی کی طرف مائل تھے۔

حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں والدین اپنی اولاد کا رجحان دیکھ کر ہی کسی پیشے میں ڈالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ترقی نہیں کر پا رہا ہے کیوں کہ اس مشین کا ہر پرزہ مس فٹ ہے پراپر جاب پراپر پرسن کا تو کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔قہر خداوندی کہنے لگا کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف جھوٹ بولتے ہیں اور سچ سے کبھی اپنی زبان کو متعارف نہیں کرتے اور ہمارے خاندان میں یہ ہر دو اقسام کے لوگ گزرے ہیں خود میرے والد محترم سچ بولنے کے اتنے دھنی تھے کہ میری ماں یعنی اپنی بیوی جیسے جابر سلطان کے آگے بھی کبھی کبھی بول دیتے تھے اور پھر ہفتوں گھر سے باہر رہتے تھے۔

میرے دادا کے بارے میں مستند روایت ہے کہ وہ کبھی غلطی سے بھی سچ نہیں بولتے صرف ایک مرتبہ غلطی سے بول گئے تھے اور وہ ان کے آخری بول ثابت ہوئے، قہر خداوندی اپنے خاندانی راز افشا کرنے میں اتنا گہرا اتر گیا کہ پھر اصل موضوع پس منظر میں چلا گیا، اس لیے ہم نے یاد دلایا کہ تم عذاب الٰہی سلمہ کے سیاست جوائن کرنے کی بات کر رہے تھے بولا وہی تو بتانے جارہا ہوں، میں نے جب اپنے خاندان کو پیدا ہو کر جوائن کر لیا اور خاندانی سینہ بہ سینہ روایتوں سے اپنے خاندان کی صفات کا پتہ چلا تو میں نے درمیان والا راستہ اختیار کیا یعنی جھوٹ اور سچ کو ملا کر بولنے لگا کیونکہ احمد فراز کی تلقین بھی یہی تھی کہ

جھوٹی باتوں میں سچی بات کو شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

چنانچہ میں زندگی بھر یہی وتیرہ اختیار کیے رہا کہ کبھی جھوٹ میں سچ کا نمک ڈالا اور کبھی سچ کا جھوٹ کا تڑکا دیا اور اسی وجہ سے میں لیڈر بن نہیں پایا کیوں کہ سچ لیڈری کے لیے بمنزلہ زہر ہلاہل کے ہوتا ہے اگر تھوڑا سا بھی منہ سے نکل جائے تو ساری عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتی ہے، ٹھیک ہے تم نے اس وجہ سے سیاست میں حصہ نہیں لیا کہ کبھی کبھی تمہارے منہ سے سچ نکل جاتا ہے لیکن اس کا عذاب الٰہی کی سیاست سے کیا تعلق ہے۔

ہم نے پوچھا۔ بڑا گہرا تعلق ہے یہ جو میرا بیٹا ہے عذاب الٰہی ہے جسے میں نے سیاست میں ڈال دیا ہے ہمارے خاندان کے اگلے پچھلے تمام چھوٹوں بڑوں سے نرالا ہے اس میں وہ ''گن'' ہیں جو سیاست کے ''گہنے'' ہیں بلکہ میرا تو اندازہ ہے کہ یہ سیاست میں بہت آگے تک جائے گا، ذرا ان ''گنوں'' کی تفصیل بھی بتاؤ نا کب تک آئیں بائیں شائیں کرتے رہو گے جہاں تک میرا خیال ہے وہ تم پر ہی گیا ہے اور اتنا ہی جھوٹا ہے جتنے تم ہو، آخر تم میں اور اس میں فرق کیا ہے۔

بولا ، بہت بڑا فرق ہے بلکہ کمال کہئے ہنر کہئے فن کہئے آرٹ کہئے جھوٹ میں خالص جھوٹ کی ایسی ملاوٹ کرتا ہے کہ جی عش عش کرنے کو چاہتا ہے، جھوٹ میں جھوٹ کی ملاوٹ ... اس کا کیا مطلب ہوا ؟ جھوٹ اور جھوٹ اگر مل بھی جائے ... یہ تو گویا ملاوٹ میں ملاوٹ ہوئی یہی تو بات ہے قہر خداوندی بولا ... سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ تو ہر کوئی ملا سکتا ہے مطلب یہ کہ یہ تو عام لوگوں کا عام سا مشغلہ ہے لیکن خاص الخاص ہنر یہ ہے کہ ملاوٹ میں ملاوٹ کی جائے لوگوں کو ایسا لگے کہ جھوٹ میں سچ کو ملایا جارہا ہے جب کہ جھوٹ میں جھوٹ ہی ملایا جارہا ہوتا ہے ہماری شکل ہی سے شاید اسے اندازہ ہوا کہ بات ہمارے پلے نہیں پڑ رہی ہے تو بولا تم کبھی فلاں بازار گئے ہو اس نے ایک ایسے بازار کا نام بتایا جہاں پر صرف عورتیں ہی خریداری کرتی تھیں۔

بولا میں نے ایک مرتبہ اس بازار کے ایک میناری والے دکاندار کے ساتھ نوکری کی تھی اس کے پاس جب کوئی عورت کوئی چیز خریدنے آجاتی تھی تو دس روپے کی چیز کے بیس بتا دیتا، عورت حسب معمول کہتی نہیں وہ فلاں دکاندار تو یہی چیز دس میں دیتا ہے اس پر فوراً دکاندار وہی چیز یعنی اسی کا ایک اور پیس اٹھا کر سامنے دھر دیتا خالہ وہ یہ ہے، دیکھو بالکل اصلی کی طرح لگ رہا ہے لیکن نقلی ہے چلو اس کے پانچ دے دو لیکن تم تو میری خالہ ہو تمہیں میں نقلی چیز کیسے دے سکتا ہوں اس پر خالہ خوشی خوشی ''اصلی چیز'' پندرہ روپے میں لے لیتی، اسے کہتے ہیں جھوٹ میں جھوٹ کی ملاوٹ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں