کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات خوش کن عمل

حیرت انگیز امر ہےکہ جمہوری دورمیں بلدیاتی انتخابات سےگریزکیا جاتا رہا جب کہ آمرانہ دورمیں یہ انتخابات کرائے جاتے رہے۔


Editorial April 27, 2015
پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز میں مسلم لیگ ن نے 59 اور تحریک انصاف نے 28 نشستیں حاصل کیں جب کہ 26 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ فوٹو : ریاض احمد

ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے 199 وارڈز کے انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمران مسلم لیگ ن 68 نشستیں حاصل کر کے پہلے جب کہ 55 نشستیں لے کر آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے، پاکستان تحریک انصاف 43 سیٹیں، ایم کیو ایم نے 19، پیپلز پارٹی 7، جماعت اسلامی6 اور اے این پی نے دو نشستیں حاصل کیں۔ ان انتخابات میں 1151 امیدوار مدمقابل تھے۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں 610 آزاد امیدوار جب کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے 541 امیدواروں نے حصہ لیا۔ تحریک انصاف سب سے زیادہ 137 امیدواروں کے ساتھ میدان میں اتری جب کہ مسلم لیگ ن نے 128 امیدواروں کے ساتھ انتخابی معرکہ لڑا۔ ان انتخابات میں 14 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو چکے تھے جن میں پی ٹی آئی کے تین، ایم کیو ایم کے دو اور مسلم لیگ ن کا ایک امیدوار جب کہ 8 آزاد امیدوار شامل تھے۔

بلدیاتی انتخابات جمہوری نظام کی نرسری سمجھے جاتے ہیں لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات سے گریز کیا جاتا رہا جب کہ آمرانہ دور میں یہ انتخابات کرائے جاتے رہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوں گے۔ اب ملک بھر کی سیاسی قوتوں کا حکومت سے یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ بلدیاتی انتخابات بھی جلد از جلد کروائے جائیں تاکہ جمہوری اثرات کو گراس روٹ لیول تک بخوبی پہنچایا جا سکے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ابھی تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے جب کہ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کرا کے جمہوری روایات کو مضبوط بنانے میں اولین کردار ادا کیا۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات پرامن ہوئے الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران فوج طلب کی تھی، ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جو شناختی کارڈ اور ووٹ کی سلپ دیکھنے کے بعد ''واک تھرو گیٹ،، سے گزرنے کی اجازت دیتے تھے۔

پولنگ اسٹیشنوں کے اندر فوج موجود تھی ۔ کچھ حلقے یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ انتخابات پرامن نہیں تھے۔ کسی ایک آدھ پولنگ اسٹیشن پر مخالف جماعتوں کے ورکرز کے درمیان معمولی نوعیت کی تلخی یا مخالفانہ نعرے بازی کو بڑھا چڑھا کر لڑائی جھگڑا یا دنگا فساد قرار دینا قطعی درست ردعمل نہیں،اس منفی رویے سے گریز کرنا چاہیے۔ جس طرح یہ انتخابات پرامن ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مناسب سیکیورٹی کے انتظامات کیے جائیں تو انتخابات کو پرامن بنانا کوئی مشکل امر نہیں۔ انتخابی نتائج کسی بھی جماعت کے عوام میں مقبولیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان الیکشن میں مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ اب بھی عوام میں بھرپور مقبولیت کی حامل جماعت ہے جب کہ تحریک انصاف 43 سیٹیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہی اس طرح وہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن قوت بن کر ابھری ہے۔

پیپلز پارٹی جو سابق حکمران جماعت رہی اور ملک بھر کی زنجیر سمجھی جاتی تھی وہ ان انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی اور اس نے صرف سات سیٹیں حاصل کیں۔ اس طرح اس کی مقبولیت کا گراف بہت زیادہ نیچے آیا ہے۔ یہ نتائج اس امر کے غماز ہیں کہ آیندہ انتخابات میں تحریک انصاف حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ نتائج کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی میں 11 نشستیں حاصل کر کے سبقت حاصل کی۔ لاہور میں کینٹ اور والٹن کنٹونمنٹ بورڈز کی 20 وارڈز میں 15 نشستوں پر مسلم لیگ ن جب کہ پانچ نشستوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح لاہور سمیت پورے پنجاب میں پیپلز پارٹی کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ راولپنڈی کی تمام نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کلین سوئپ کیا جب کہ تحریک انصاف کسی بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کرسکی، چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈز کی 10 نشستوں میں سے مسلم لیگ ن نے 9 پر کامیابی حاصل کی جب کہ ایک سیٹ جماعت اسلامی نے جیتی۔

حیرت انگیز امر ہے کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد کو اپنے دھرنوں کا مرکز بنایا تھا اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر دی تھیں مگر وہ راولپنڈی اور چکلالہ کے علاقے میں کوئی انتخابی معرکہ نہ مار سکی یہاں تک کہ وہ اپنے کامیاب ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حلقوں سے بھی ہار گئی، عمران خان کے حلقے سے بھی تحریک انصاف کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ بعض حلقوں میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں کانٹے کا مقابلہ ہوا، ٹیکسلا کی دونوں نشستوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی، واہ کینٹ میں تحریک انصاف نے 6 اور مسلم لیگ ن نے چار نشستیں لیں، اسی طرح مری کی دو نشستوں میں ایک پر مسلم لیگ ن اور دوسری پر تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب رہا، کامرہ کی نشستوں میں سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے ایک ایک نشست جیتی۔

پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز میں مسلم لیگ ن نے 59 اور تحریک انصاف نے 28 نشستیں حاصل کیں جب کہ 26 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ان انتخابات میں لوگوں کا رش توقع کے برعکس انتہائی کم رہا، امیدواروں کے کیمپس میں بھی جوش و خروش دکھائی نہ دیا۔ اقتدار حاصل کرنے کا اچھا اور جمہوری طریقہ انتخابات ہی ہیں۔ اب حکومت بلا تاخیر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو بھی ممکن بنائے تاکہ جمہوریت کے اثرات مقامی سطح پر بھی منتقل ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |