علم عمل اور پھر دعا
خدا کے لیے جاگ جائیے، اللہ کے نظام میں پہلے علم آتا ہے، پھر عمل کی باری آتی ہے اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں
www.facebook.com/javed.chaudhry
آپ اب چند حقائق بھی ملاحظہ کیجیے۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کو اپنے ایمان کا حصہ نہ بنا لیں، ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں ہم پر جب بھی مشکل پڑتی ہے ہم خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور رب کعبہ سے رو رو کر اس کے کرم، رحم اور مہربانی کی بھیک مانگتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں مسلمان اگر طواف کعبہ کرتے ہوئے، خانہ کعبہ کی دہلیز پر ہاتھ رکھ کر، غلاف کعبہ تھام کر یا پھر مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر اللہ سے جو دعا کریں باری تعالیٰ اس دعا کو قبولیت بخش دیتا ہے، ہم روضہ رسولؐ کو بھی دعاؤں کی قبولیت کا مرکز سمجھتے ہیں۔
ہم باب جبرائیل پر بیٹھ کر، ہم قدمین شریفین میں کھڑے ہو کر، ہم روضہ کی جالیوں کو تھام کر، ہم ریاض الجنۃ میں سجدہ ریز ہو کر اور ہم اصحاب صفہ کے چبوترے پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کے صدقے اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتے ہیں اللہ اپنے حبیب کے صدقے ہمیں وہ عنایت کر دیتا ہے، یہ ہمارا یقین بھی ہے اور ایمان بھی۔ آپ اب اس یقین کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد ایک دوسری حقیقت ملاحظہ کیجیے، یمن میں جنوری 2015ء میں حوثی باغیوں نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، یمن کی کل آبادی دو کروڑ 51 لاکھ ہے،ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں حوثی باغیوں کی کل تعداد ایک لاکھ ہے۔
حوثیوں کی بغاوت کے بعد سعودی عرب اور یو اے ای کو تین خطرات محسوس ہوئے، ایک، حوثی باغی خلیج عدن پر قبضہ کر کے تیل کے جہازوں کا راستہ روک دیں گے، دو، یمن پر شیعہ حوثیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور یہ لوگ سعودی عرب کے لیے مسلسل خطرہ بن جائیں گے اورتین یہ لوگ ایران اور شام کے شیعہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر سعودی عرب پر حملہ کر دیں گے، یہ تینوں خدشات محض خدشات ہیں، ان میں سے ابھی تک کوئی ایک خدشہ بھی حقیقت نہیں بنا لیکن سعودی حکمران خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں جا کر اللہ تعالیٰ کی نصرت مانگنے کے بجائے ترکی اور پاکستان سے فوج مانگ رہے ہیں، یہ ہم جیسے گناہ گاروں سے فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں، یہ پاکستان کو خوفناک نتائج کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
یہ اپنے وزراء کو ترکی اور پاکستان بھی بھجوا رہے ہیں اور امام کعبہ شیخ خالد الغامدی بھی پاکستان تشریف لا کر پاکستانی بھائیوں کو مدد کے لیے تیار کر رہے ہیں، ہم گناہ گار لوگ ہر مشکل، ہر مصیبت، ہر زلزلے، ہر سیلاب، ہر خشک سالی، ہر قرض، ہر جنگ اور ہر سیاسی بحران میں مکہ اور مدینہ کا رخ کرتے ہیں جب کہ ارض مقدس کے وہ خادمین ہم جن کے ہاتھ چومنا، جن کے لبادے کو ہاتھ لگانا اور جن کے جوتے اٹھانا سعادت سمجھتے ہیں وہ مدد کے لیے ہم گناہگاروں سے اپیل کر رہے ہیں۔
کیوں؟ کیونکہ ترکی اور پاکستان خواہ کتنے ہی گناہ گار، کتنے ہی سیاہ کار اور خواہ کتنے ہی عجمی کیوں نہ ہوں یہ بہرحال دنیا کی ساتویں اورآٹھویں بڑی فوجی طاقتیں ہیں، پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے چنانچہ عرب تمام تر دنیاوی، روحانی اور دینی طاقت کے باوجود ترکی جیسے اس سیکولر ملک کے محتاج ہیں جو پچھلے 90 سال سے خود کو اسلامی دنیا سے کاٹ کر یورپین یونین کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور جس میں آج بھی شراب، سود اور جنسی آزادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے ، عربوں کو اس پاکستان کی بھی ضرورت ہے جو آج تک ملک سے انگریز کا قانون ختم نہیں کرا سکا، جو آج تک عدالتوں میں اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکا۔
یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے، یہ حقیقت ثابت کرتی ہے خوش فہمیوں اور حقائق میں زمین اور آسمان کا فاصلہ ہے، آپ کو اگر اس جواز کے بعد بھی یہ فاصلہ نظر نہیں آتا تو آپ ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے، سعودی عرب نے 2010ء میں حجاز مقدس کے دفاع کے لیے 60 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے، یہ معاہدے کس کے ساتھ ہوئے؟ اس ملک کا نام امریکا تھا، سعودی عرب نے 2014ء میں امریکا سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے، امریکا نے پچھلے سال عرب ممالک کو ساڑھے آٹھ ارب ڈالر، فرانس نے پانچ ارب ڈالر اور برطانیہ نے چار ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے۔
سعودی عرب نے پچھلے سال لبنان کو بھی فرانس سے 3 ارب ڈالر کے ہتھیار خرید کر دیے، آپ مزید حقائق ملاحظہ کیجیے، سعودی فضائیہ خطے میں اسرائیل کے بعد سب سے بڑی فضائیہ ہے، سعودی عرب کے پاس امریکا، فرانس اور برطانیہ کے جدید ترین طیارے ہیں، سعودی فضائیہ کے پاس امریکا کے ڈیڑھ سو F-15Eagleاور Boeing F-15C/S طیارے، 90 عدد برطانوی Euro Fighter Typhoonطیارے، جرمنی اور برطانیہ کی مشترکہ پیداوارParnavia Tornedos کے 100 طیارے اور فرانس کے درجنوں Airbus A330 MRTT طیارے ہیں، سعودی فضائیہ کے پاس امریکی ہیلی کاپٹر اپاچی اور ایواکس بھی ہیں۔
پاناویا ٹارنیڈوز(PANAVIA TORNEDOS) برطانیہ اور جرمنی کی مشترکہ کمپنی پانا ویا ائیر کرافٹ جی ایم بی ایچ تیار کرتی ہے، ایف 15 ایگل'' امریکی کمپنی میک ڈونیل ڈگلس'' تیار کرتی ہے، یہ کمپنی دو کمپنیوں میک ڈونیل ائیر کرافٹ اور ڈگلس ائیر کرافٹ کا مشترکہ منصوبہ ہے، کمپنی کے پہلے مینجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ ایس لیوس تھے، یہ کون تھے، آپ اس کا اندازہ ان کے نام سے لگا لیجیے، سعودی عرب کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں امریکی ساختہ ٹینک AMX-30,M1Abrams بھی ہیں اور M60Patton بھی۔ اس کے پاس فرانسیسی ساختہ AMX-10P اور برطانوی ساختہ Nexter Aravis اورPanhard M3 آرمرڈ گاڑیاں بھی ہیں، سعودی عرب کا آرٹلری اور میزائل سسٹم بھی برطانوی، امریکی اور چینی ہے۔
آپ انٹرنیٹ پر جائیے اور سعودی عرب سمیت پوری عرب دنیا کا دفاعی نظام دیکھئے، آپ کو اس نظام پر امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی یا چین کا نام ملے گا، یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے، یہ حقیقت ثابت کرتی ہے ہم آج اپنی مقدس زمینوں کی حفاظت کے لیے بھی ان قوموں کے علم اور ٹیکنالوجی کے محتاج ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، یہ لوگ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، آپ اگر تھوڑی سی ریسرچ کریں، آپ جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر، ٹینک، میزائل، رائفلیں اور دفاعی کمیونیکیشن سسٹم بنانے والی کمپنیوں پر ذرا سی تحقیق کر لیں، آپ اگر یہ دیکھ لیں یہ کمپنیاں کس نے بنائیں، کمپنیوں پر سرمایہ کون لگا رہا ہے۔
ان کے پیچھے بینک، انشورنس کمپنیاں اور اسٹاک ایکسچینج بروکر کون ہیں، یہ ہتھیار، یہ اسلحہ ایجاد کس نے کیا اور یہ اسلحہ بیچنے والی کمپنیاں کون ہیں تو آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا، یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم پچھلے ساٹھ برسوں سے اپنا قبلہ اول چھڑوانے کی کوشش کر رہے ہیں یا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا سے تمام مسلمانوں کو ختم کر دینا چاہتے ہیں مگر ہم یہ جانتے ہوئے، یہ بوجھتے ہوئے بھی اپنے مقدس ترین دعائیہ مقامات کی حفاظت کے لیے ان لوگوں، ان کی کمپنیوں اور ان کے ہتھیاروں کے محتاج ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ، یہ قومیں علم، ٹیکنالوجی اور معیشت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
اتنے آگے کہ ہمیں حجاز مقدس کی حفاظت کے لیے بھی ان کے جہازوں، ان کے ٹینکوں، ان کے میزائل اور ان کے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہے، ہم ان دشمنوں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ہم ان کے ہتھیاروں کے بغیر اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، کیا یہ اس رسولؐ کی قوم کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں جن کے گھر میں کھانے کے لیے ایک کھجور نہیں ہوتی تھی لیکن دیوار پر 9 تلواریں اور 7 زرہیں لٹک رہی ہوتی تھیں، جو اس قدر پریکٹیکل تھے کہ زندگی میں 27 غزوات میں خود شریک ہوئے، جو تاجر بھی تھے، معلم بھی تھے اور مبلغ بھی تھے۔
جنہوں نے زندگی میں ایک لمحہ ضایع نہیں کیا، جو گھوڑے سے اترتے تھے تو صفہ کے اصحاب کو پڑھانے لگتے تھے، وہاں سے فارغ ہوتے تھے تو بیماروں کی عیادت کرتے تھے، وہاں سے نکلتے تھے تو بازاروں میں تاجروں کے مسائل سنتے تھے، وہاں سے نکلتے تھے تو مسجد آ جاتے تھے،جو رات کے وقت اہل خانہ کی تربیت فرماتے تھے اور اگر پھر بھی وقت بچ جاتا تو وہ اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے، اپنا بستر ٹھیک کر لیتے تھے، اپنے جانوروں کے لیے رسیاں بنا لیتے تھے، جو پہلے 313 کا لشکر بناتے تھے، لشکر کو بدر کے میدان میں لاتے تھے اور پھر اللہ سے نصرت کی دعا کرتے تھے۔
جنہوں نے پوری زندگی پہلے عمل کیا اور پھر اللہ سے دعا کی لیکن ہم علم اور عمل کے بغیر دعا کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ درست ہے شفاء کے لیے دعا چاہیے لیکن دوا بھی تو ضروری ہے، ہم نے دوا جیسی ضرورت تو ٹام، ڈک اور ہنری پر چھوڑ دی اور خود جائے نماز بچھا کر دعاؤں میں مصروف ہیں، ہم حجاز مقدس کی حفاظت کے لیے جہاز، ٹینک، توپیں اور مواصلاتی نظام اللہ کے ان دشمنوں سے لے رہے ہیں جن کے خلاف اللہ نے اسلام اتارا تھا اور نصرت کی اپیل اللہ تعالیٰ سے کر رہے ہیں، ہم دنیا کو ہدایت کے لیے سعودی عرب بلاتے ہیں لیکن سعودی عرب اپنی حفاظت کے لیے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن اسلحہ خریدتا ہے اور پھر ترکی اور پاکستان سے فوج مانگتا ہے۔
خدا کے لیے جاگ جائیے، ہم نے ہزار سال غلامی میں گزار دیے ہیں، ہم ہزار سال سے علم والوں، عمل والوں اور مضبوط دفاع والوں کی غلامی کر رہے ہیں، ہماری حالت یہ تھی پانچ سو گورے رائفلیں لے کر ہندوستان آئے اور پانچ سو رائفلوں کے ذریعے 25 کروڑ لوگوں کو غلام بنا لیا، چنگیز خان کے پاس دو دفاعی تکنیکس تھیں، تاتاری فوجی دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کا فن جانتے تھے، یہ مہینے کا سفر دس دن میں بھی طے کرلیتے تھے اور انھوں نے ان دو تکنیکس کے ذریعے پوری اسلامی دنیا کو کھوپڑیوں کا مینار بنا دیا، برطانیہ نے فرانس اور روس کو ساتھ ملایا اور 600 سال پرانی عثمانی خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔
فرڈی نینڈ معیشت کو ہتھیار بناتا ہے اور ہمیں کان سے پکڑ کر اسپین سے نکال دیتا ہے اور ہمارا بادشاہ مراکش میں بھیک مانگتا مانگتا مر جاتا ہے، ہم ہزار سال سے آکسفورڈ اور کیمبرج کی علمی غلامی بھی کر رہے ہیں، ہم دو سو سال سے ہارورڈ کے غلام بھی ہیں، ہم معیشت میں بھی عیسائی، یہودی اور چینی کمپنیوں کے غلام ہیں اور ہم امن، سکون اور انصاف کے لیے بھی یورپ کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور کبھی امریکا اور کینیڈا کی شہریت مانگتے ہیں۔
خدا کے لیے جاگ جائیے، اللہ کے نظام میں پہلے علم آتا ہے، پھر عمل کی باری آتی ہے اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں، دعا سے پہلے عمل کریں، علم حاصل کریں ورنہ ہمیں اسی طرح کعبہ کی حفاظت کے لیے مسٹر میک ڈونیل، مسٹر ڈگلس اور مسٹر ڈیوڈ کی منتیں کرنا پڑیں گی، ہم اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں گے اور دنیا ہمیں جوتے مارتی رہے گی۔