
جب ہم بیمار ہو جاییں تو وہ دن یاد کرکے ہم پر پیسا خرچ کرنا
— عائشہ صدیقہ (@A_Sadiqa) May 20, 2015
جب ہم تمہاری خواہشیں پوری کرنے کے لئے اپنی خواہشی قربان کرتے تھے #والدین
لیکن جب یہی والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اولاد کو دنیا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال کیا، اچھی تعلیم دلائی جس کی وجہ سے آج بچّہ ایک اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور اتنا مصروف ہے کہ اُسے اب یہ دیکھنے کا وقت بھی نہیں کہ والدین کس حال میں ہیں؟ اُسے اپنے دوستوں میں وقت گزارنا زیادہ اچھا لگتا ہے، اپنی مرضی سے اپنے وقت پر کھانا اور سونا اچھا لگتا ہے۔ یہ خیال نہیں آتا کہ کم از کم دن میں ایک وقت رات کا کھانا ہی ساتھ بیٹھ کر کھا لیا جائے۔ والدین کے سونے سے پہلے گھر آیا جائے تاکہ کچھ دیر اُن کے ساتھ وقت گزارا جائے اور کبھی کسی چھٹی کے دن اُنھیں بھی ساتھ لے کر جایا جائے۔
اکثر والدین اپنے بچّوں کی شکایت نہیں کرتے اور اپنے آپ کو بچّوں اور اُن کے بچّوں کے وقت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کبھی شکایت کر بیٹھے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ والدین اُن کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اُنھیں آزادی میسر نہیں ہیں۔ ایسے وقت میں وہی والدین جنہوں نے اپنی ساری حیات اپنے بچّوں کے لئے تیاگ دی وہ اب اُن پر بوجھ بن جاتے ہیں اور وہ اُنہیں دارالسکون میں غیروں کے حوالے کر آتے ہیں۔ کچھ کو پاگل یا نفسیاتی مریض قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنا حق نہ ملنے پر بچّوں کی طرح لڑنے اور جھگڑنے لگتے ہیں یا پھر رونے لگتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہوتے ہیں لیکن جب اُنھیں اِس طرح غیروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ ضرور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
https://twitter.com/AsadYusufzai/status/464067166359134208
دارالسکون سے مراد ایک ایسا گھر ہے جس میں ہم سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور یقیناً وہ گھر سب اپنوں سے مل کر ہی بنتا ہے لیکن اب یہ ایسا گھر بن چکا ہے جہاں بزرگوں کو رکھا جاتا ہے۔ پہلے تو مشرق میں دارالسکون کے نام سے کوئی واقف نہ تھا لیکن اب ہر ملک اور شہر میں ایسے گھر آباد ہوچکے ہیں۔ بہت سی این جی اوز اور نوجوانوں کے ٹولے یہاں آتے ہیں اور تمام تہوار منائے جاتے ہیں چاہے وہ ایسٹر ہو، ہولی ہو یا عید، ویلنٹائن ڈے یا پھر مدرز ڈے ہو۔ مختلف لوگ آکر مختلف قسم کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو اکیلے پن سے نجات دلائی جا سکے۔ لیکن اگر یہاں کوئی نہیں ہوتا تو اُن کی اپنی اولادیں جن کی خوشیوں کے لیے اُنہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا۔
Was at Old-Home(#DarulSukun), No words to explain just want to tell u that they need our help. :'( #Karachi #Pakistan pic.twitter.com/vDSaguBERp
— Sanam Balochians (@SanamBalochfans) November 11, 2014
بوڑھے افراد کو بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہم لوگوں کو لیکن فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی زندگی میں یہ خوشیاں خود سے لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ عمر کے ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُنھیں ہر قدم پر ہماری اُسی طرح ضرورت ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہمیں اُن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے ہیں سوائے تھوڑا سا وقت اور پیار کے دو بول درکار ہوتے ہیں خوش رہنے کے لئے۔
کیا آپ کے گھر میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟ کیا آپ اُنھیں اپنا وقت دیتے ہیں؟ اگر نہیں تو جائیے اور اپنے والدین کو وہ وقت دیجئے جو آپ پر اُن کا قرض ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔