
یہ فقرہ سیزر کے لبوں سے نکلا اور تاریخ کے صفحوں پر بے وفائی، سازش اور دھوکہ دہی کے استعارے کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ آخری ہچکیاں لیتے وقت سیزر کے ذہن میں اُن تمام جنگوں اور فتوحات کے واقعات کی فلم ضرور چلی ہوگی جب موت اس کے قریب سے چھو کر گزر گئی اور آئی بھی تو اس کے ہاتھوں جسے ساری زندگی اُس نے بیٹے کی طرح پیار کیا۔
گزشتہ دنوں عمران خان کا یہ بیان کہ ''پینتیس پنکچر والی بات صرف ایک سیاسی بیان تھا'' پڑھا تو ایسا لگا جیسے کپتان نے میرے پہلو میں خنجر گھونپ دیا ہو۔ میں کتابوں اور اُن میں لکھے ہوئے حروف پر یقین کرنے والا بندہ ہوں، جس نے ہمیشہ یہ یقین رکھا کہ ایک لیڈر اپنے لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اِسی آئیڈیل ازم نے مجھے عمران خان کی طرف راغب کیا۔ جب اُس نے اپنے 2011 کے لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد پے در پے بیانات میں دعویٰ کیا کہ میں اپنی قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔
Soon it will be the drop scene of #imrankhan allegations as Arif alvi apologize for 35 puncture.
— Ashar Qazi (@ashar_qazi) July 2, 2015
یہ بیان پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں 2013 کے ابتدائی مہینوں کے واقعات فلم کی طرح چلنے لگے جب الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ میری رہائش نون لیگ کی ایک اکثریتی آبادی میں ہے۔ میرے خاندان کے بہت سے بزرگوں نے نواز شریف کی حمایت کا اعلان کیا مگر میرے اور مجھ سمیت کچھ نوجوانوں نے عمران خان کی آواز پنجاب کے اس دور افتادہ علاقے میں بلند کرنے کی ٹھان لی جہاں مولوی اور زمیندار کے اتحاد کےعلاوہ کسی اور کا جیتنا ناممکن ہے۔ ہم سب دوست جانتے تھے کہ ہم الیکشن نہیں جیتیں گے لیکن جب ذہن پر حق اور سچ کا سودا سمایا ہو تو ہار اور جیت سے فر ق ہی کیا پڑتا ہے؟
پس ثابت ہوا کے پنتیس پنکچرز کی ضرورت عمران خان کے دماغ کو ہے #ImranKhan #PTI #35puncture
— Aisha Ghazi (@aishaghazi) July 1, 2015
وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم اپنے محلہ کے وسطی میدان میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد کروا رہے تھے اور چاروں طرف ایستادہ مکانوں میں سے ایک بھی مکان ایسا نہیں تھا جہاں ہم تحریک انصاف کا پوسٹر لگا سکتے کیونکہ ہر گھر پر مسلم لیگ نون کا پوسٹر چسپاں تھا۔ وہ رات بھی مجھے یاد ہے جب عمران خان نے ہمارے قصبے میں آنا تھا اور ہم تمام رات جاگ کر جلسہ گاہ میں جھنڈے اور بینر لگاتے رہے حتیٰ کہ شدید بارش اور آندھی کی وجہ سے ہمیں گھر واپس جانا پڑا۔ دس پندرہ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر علاقے میں گھومتے پھرتے اور 'کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان' اور 'صاف چلی شفاف چلی تحریکِ انصاف چلی' کے نعرے لگاتے لگاتے حلق میں کانٹے پڑجاتے اور سر میں درد شروع ہوجاتا۔ محلے کے دوستوں، ہمسائیوں، بزرگوں کی معنی خیز مسکراہٹوں اور طنزیہ فقروں کا مقابلہ ہمیشہ حوصلے اور یقین سے کیا۔ الیکشن کا دن بھی ابھی ذہن سے محو نہیں ہوا جب ہمارے پاس اتنے بھی بندے نہیں تھے کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر اپنا ایک نمائندہ بٹھاسکیں۔ جب تحریکِ انصاف نے صرف 18 ہزارووٹ لیے تو ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے کہ توقع سے بہت اچھے ووٹ مل گئے۔
الیکشن کے بعد سے دھرنے کے دنوں تک اور دھرنے سے جوڈیشل کمیشن تک میں نے عمران خان کے ایک ایک بیان کا دفاع کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ بندہ کبھی غلط بیانی نہیں کرسکتا۔ مگر کیا کریں کہ آخری تجزیے میں یہ سب کچھ غلط ثابت ہوا۔ کفِ افسوس ملتے ہوئے عمران خان کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا.....
'' کپتان، تم بھی؟''
[poll id="521"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔