میگا کرپشن
ہماری عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وکلا تحریک کے بعد 2007 میں ’’حکومت وغیرہ‘‘ کے دباؤ سے آزاد ہوگئی ہے
MIRPUR:
تازہ اخباری اطلاعات کے مطابق نیب نے کرپشن کے 150 اسکینڈلز کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی جس میں تقریباً150 سیاسی معززین کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن اور مختلف بدعنوانیوں کے کیسز زیر تفتیش ہیں۔ اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیب اب بڑی مچھلیوں بلکہ مگر مچھوں کے خلاف بھی حرکت میں آرہی ہے۔
اب تک ہوتا یہ رہا ہے کہ مگرمچھوں کو کٹہرے میں لانے کے بجائے ان کے ایجنٹوں کو پکڑا جاتا تھا اور کچھ عرصے بعد اللہ اللہ خیر صلا ہوجاتا تھا۔ یہ پہلا موقعہ نہیں کہ میگا کرپشن کی خبریں اخبارات اور ٹی وی کی زینت بنی ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی بڑے اسکینڈلز کی خبریں دھوم دھام سے میڈیا کی زینت بنتی رہیں، لیکن نتیجہ ہمیشہ ٹائیں ٹائیں فش ہی رہا ہے ،اس پس منظر میں ان 150 اسکینڈلز کے منطقی انجام تک پہنچنے کی امید کم ہی ہے اگرچہ یہ 150 اسکینڈلز سپریم کورٹ میں پیش کردیے گئے ہیں اور نیب کے حکام کا کہنا ہے کہ ان 150 کیسز کا فیصلہ ستمبر 2015 تک ہوجائے گا۔
ہماری عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وکلا تحریک کے بعد 2007 میں ''حکومت وغیرہ'' کے دباؤ سے آزاد ہوگئی ہے لیکن حکومت خود کو زیادہ طاقتور سمجھتی ہے۔ سابق دور میں زرداری کے خلاف سوئس عدالت کو خط لکھنے کا کیس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بڑی جرات سے ہینڈل کیا۔حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو اپنی وزارت عظمیٰ سپریم کورٹ کے حکم پر چھوڑنی پڑی لیکن ہوا کیا جو خط سوئس حکومت کو بہ اصرار بھیجا گیا وہ بے فائدہ رہا۔ میاں برادران کے خلاف بھی اسکینڈلز منظر عام پر آئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں توقیر صادق کا سرکاری کرپشن کیس مہینوں میڈیا کی زینت بنتا رہا لیکن پھر حیرت انگیز طور پر عوام کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
نیب نے سپریم کورٹ میں جن 150 معززین کی رپورٹ پیش کی ہے ان میں بہت بڑی تعداد سیاستدانوں کی ہے۔جن میں میاں صاحبان' اسحاق ڈار' آصف زرداری ' یوسف رضا گیلانی ' راجہ پرویز اشرف اور چوہدری شجاعت وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ہمارے سیاسی اہلکار فوجی حکمرانوں کا نام سننے کے لیے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ فوجی حکومتیں جمہوریت اور ترقی کی راہ میں بہت بڑی دیوار بن کر حائل ہوجاتی ہیں اور ملک پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔ نیب نے جن 150 محترمین کی فہرستیں سپریم کورٹ میں پیش کی ہیں ان میں غالباً 99 فیصد سیاستدان ہیں اور ان سیاستدانوں نے جس اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ سب جمہوری دور ہی میں کیا ہے۔ کیا اس ''کارکردگی'' سے ملک کی ترقی کو عروج حاصل ہوا کیا اس شاندار کارکردگی سے جمہوریت کو مضبوط ہونے اور پروان چڑھنے میں مدد ملی؟
ایک بالکل تازہ خبر کے مطابق ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کو سی ڈی اے نے ''280'' پلاٹ الاٹ کیے ہیں۔ سندھ میں ایک سابق وزیر پر سرکاری نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کمانے کا اسکینڈل بھی تازہ ہے ۔ بدقسمتی سے تفتیشی ادارے عموماً حکومتوں کے زیر اثر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں کرپشن کلچر اس قدر مستحکم ہوگیا ہے کہ اسے منہدم کرنا آسان نہیں۔ عدلیہ میں مقدمات کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ملزمان اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے فیصلے تک جوان سے بوڑھے ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کی رپورٹ میں جن کیسوں کا ذکر سامنے آیا ہے' ان پر 15-14 سال سے انکوائری جاری ہے۔ کیا اس طویل مدتی انکوائری میں ہمارے سیاسی حکمرانوں کا دخل ہے یا اس کی آئی اور وجہ ہے 'اس کی حقیقت بھی سامنے آنی چاہیے۔
فوجی حکومتیں بلاشبہ جمہوریت کو پروان چڑھنے نہیں دیتیں لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ عوام فوجی حکومتوں کو پسند کرتے ہیں؟ ہمارے پیارے سیاستدانو! آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر کہ فوجی آمروں کو جمہوریت میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن یہ کیسا اسرار ہے کہ فوج نواز شریف کو ہٹاتی ہے تو بے نظیر مٹھائی بانٹتی نظر آتی ہیں اور بے نظیر برسراقتدار آتی ہوں تو نواز شریف ان کے سب سے بڑے مخالف ہوتے ہیں۔ اگر جمہوریت کا نامکرپشن یا قبائلی دشمنی ہے تو ایسی جمہوریت پر عوام کا اعتماد نہیں۔