پلوٹو پر بھیجے جانے والے خلائی جہاز کا زمین سے دوبارہ رابطہ

نیوہورائزن نے پلوٹو کے اہم رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کی جسامت کے بارے میں درست تفصیلات دی ہیں۔


ویب ڈیسک July 15, 2015
نیوہورائزن کے تین ارب میل دور پلوٹو جانے کے بعد امریکہ واحد ملک ہوگیا ہے جو نظامِ شمسی کے تمام سیاروں اور اہم اجرام تک اپنے خلائی جہاز بھیج چکا ہے۔ فوٹو:فائل

KATHMANDU: دس سال بعد پلوٹو کے قریب پہنچنے والے پہلے خلائی جہاز 'نیو ہورائزن' نے 12 گھنٹے کی خاموشی کے بعد زمین پر دوبارہ اپنی موجودگی کا سگنل بھیجا ہے جس سے سائنسدانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

1930 میں دریافت ہونے والے پلوٹو کی ہم اب تک دھندلی سی تصاویر ہی دیکھتے رہے تھے کیونکہ بہترین دوربینوں سے بھی یہ ایک دھندلے نقطے سے ذیادہ دکھائی نہیں دیتا تھا تاہم 2010 میں ہبل دوربین نے اس کی کچھ بہتر تصاویر فراہم کی تھیں۔ لیکن اب نیو ہورائزن نے اس کے دو چاند کیربیرس اور اسٹائکس کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔



نیوہورائزن فلائی بائی کے عمل سے گزرنے کے بعد اب پلوٹو سے دور ہورہا ہے۔ فلائی بائی کے عمل میں جہاز نے پلوٹو کے قریب سے گزر کر اس کے گرد گھومتے ہوئے اس کی ثقلی قوت سے خود کو دھکیلا اور آگے بڑھ گیا جب کہ اس دوران اس نے پلوٹو کی تصاویریں بھی اتاریں اور جن میں سے کئی تصاویر نے خلائی سائنس کے شائقین کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔

ناسا کے مطابق آخری اطلاعات تک پیانو کی جسامت کا خلائی جہاز 31000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پلوٹو سے صرف 7750 میل کی دوری سے گزرا ہے اور اس نے وہاں کی شاندار تصاویر لی ہیں جو پروسیسنگ کے بعد جلد ہی شائع کی جائیں گی۔ ماہرین کے مطابق پلوٹو کی فضا بہت شدید ہے اور اس کے قطبین پر برف موجود ہوسکتی ہے۔ نیوہورائزن نے پلوٹو کی جسامت کے بارے میں بھی حیرت انگیز معلومات فراہم کی ہیں اور بتایا ہے کہ اس کا قطر 2,370 کلومیٹر ہے جو پرانے اندازوں سے زائد ہے لیکن تین ارب میل دور ہونے سے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔

ناسا کی جانب سے نیوہورائزن خلائی جہاز بھیجنے کے بعد امریکا دنیا کا وہ واحد ملک ہوگیا ہے جس نے نظامِ شمسی کے تمام سیاروں یعنی عطارد (مرکری) سے لے کر پلوٹو تک تمام اہم اجسام پر خلائی جہاز بھیجے ہیں۔ ان میں مریخ پر اسپرٹ، اوپرچونیٹی اور مارس روور مریخ کی سطح پر اترے جب کہ وائکنگ نامی جہاز کو سیارہ زہرہ (وینس) کی خبر لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں