’’گل صاحب‘‘

دنیا میں تاریخ سےزیادہ متعصب اورگمراہ کن مضمون کوئی نہیں۔تعصب کےضمیرمیں گندھا ہوااس کا آٹا بدبودار اور متعفن زدہ ہے


Orya Maqbool Jan August 17, 2015
[email protected]

ان سے آخری گفتگو چند دن قبل ہوئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بہت ہی پریشان تھے۔ وہ جنھیں اللہ نے بصیرت عطا کی ہے وہ اس فیصلے کے دوررس اثرات سے آگاہ ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ جسٹس منیر کی 1954 کی رپورٹ کے بعد یہ دوسری دفعہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی قربانی سے جنم لینے والی اس مملکت کے بنیادی تصورکو ایک آئینی ترمیم کی ٹھوکر پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی سے لے کر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی تک سیکڑوں علماء جو یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ آئین پاکستان کی مقدس کتاب میں قرار داد مقاصد تحریر کرنے سے یہ ملک مستقل طور پر اللہ کی بادشاہت قبول کرلے گا۔ ان کی زندگیوں میں ہی اس جمہوری نظام نے اپنی شعبدہ بازیاں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ حیرت ہے جس نظام کا تصورہی عوام کی بادشاہی پر رکھا گیا ہو، وہ اللہ کی بادشاہی سے ٹکرائے گا نہیں۔ عوام کی بادشاہی تو ایک ایسا فریب ہے جس میں دنیا کے ہر جمہوری ملک کے عوام کو مبتلا رکھا گیا ہے۔

کارپوریٹ سرمائے سے جنم لینے والی سیاسی پارٹیاں اور اسی سرمائے سے پیدا ہونے والی میڈیا کی چکا چوند کے درمیان پندرہ بیس روز میلے میں ڈالے جانے ووٹوں کی حد تک عوام کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ ان کی رائے سے یہ عوام کی بادشاہت قائم ہوتی ہے۔ اس کے بعد عوام کی یہ بادشاہت چار پانچ سو کے ایوان میں جمہوری طور پر وہی فیصلے کرتی ہے جو ان کے وہ آقا کہتے ہیں جنہوں نے ان کی سیاست میں سرمایہ لگایا ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کو جو اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ جمہوری نظام کی یہ پٹڑی اس لیے بچھائی گئی ہے کہ اس پر چڑھ کر ایک دن اسلامی نظام کی ٹرین منزل مقصود پر پہنچ سکتی ہے تو ایسی غلط فہمی دماغ سے نکال دینی چاہیے۔

جنہوں نے یہ عوام کی بادشاہت کے فریب کے نام پر یہ جمہوری پٹڑی بچھائی ہے وہ یہ ساری پٹڑی تباہ کر دیتے ہیں لیکن اس پر سوار ہو کر ایسی حکومت کبھی قائم نہیں ہونے دیتے جو اللہ کی حاکمیت کو نافذ کرے۔ الجزائر اور مصر اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہ گفتگو کا لب لباب تھا۔ وہ رات اس موضوع پر کسی ٹیلی ویژن چینل پر طویل انٹرویو دے چکے تھے اور میں ایک کالم تحریر کر چکا تھا۔ گفتگو نے طول پکڑا تو کہنے لگے مری جا رہا ہوں' وہاں میرے پاس ایک گھر ہے' وہیں چلے آؤ' بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔کوئی لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ وہ مری چلے گئے اور میں لاہور آ گیا اور پھر یہیں پر یہ خبر ملی کہ وہ انتقال کر گئے۔

نسیم انور بیگ صاحب کی پر رونق اور ایمان افروز میز پر ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔کچھ عرصہ پہلے وہ فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ پورا ملک گزشتہ پندرہ سالوں سے افغان جہاد کا گواہ تھا اور اب روس کے جانے کے بعد وہاں پر عالمی طاقتوں کی رسہ کشی دیکھ رہا تھا۔ آئی جے آئی بن چکی تھی اور نواز شریف برسراقتدار آ چکے تھے۔ جنرل حمید گل جن کا نام اس وقت تک ایک افسانوی کردار کی چاشنی لیے ہوئے زبان زدعام تھا۔ وہ خواب دکھاتا ہے۔ قرون اولیٰ کی باتیں کرتا ہے۔ ایک سوچ رکھتا ہے' قیادت فراہم کر سکتا ہے۔ ایسا سوچنے والے بھی بہت تھے اور یہ کہہ کر انھیں مسترد کرنے والے بھی کافی کہ وہ ایک جہادی ہے' جرنیل ہے' فوج ہی کا دوسرا چہرہ ہے۔ ایسے کردار اپنے اندر بلا کی کشش رکھتے ہیں۔ ایسے کرداروں کے مداح ان پر جان چھڑکنے والے ہوتے ہیں اور ان کے مخالف ان کی موت کے آرزو مند۔ چرچل جب اپنی مقبولیت کے عروج پر تھا تو جنگ عظیم دوم کی فتح کے بعد ایک دفعہ پیرس کے بازار میں گھوم رہا تھا۔

ایک خاتون نے اس کا گریبان تھاما اور کہا ''اگر تم میرے خاوند ہوتے تو میں تمہاری کافی میں زہر ملا دیتی''۔ چرچل مسکرایا اور اس نے کہا ''اگر تم میری بیوی ہوتی تو میں وہ کافی بخوشی پی لیتا''۔ ایسی ہی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی جنرل حمید گل کا بھی خاصہ تھی اور شاید یہ ہر ایسے کردار کا خاصہ ہوتی ہے جسے محبت کے پھول اور نفرت کے پتھر بیک وقت ملے ہوں۔ یوسف زئی پختون قبیلے کا فرد جس کے آباؤ اجداد سرگودھا میں آ کر آباد ہو گئے۔ تمتماتا ہوا چہرہ اور آنکھوں میں حیاء اور شرم کی خیرہ کر دینے والی چمک۔شخصیت کا رعب ایسا کہ محفل میں کسی کو لغو یا فضول بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ وہ آتے تو نسیم انور بیگ صاحب ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ یوں تو میز پر موجود ہر کوئی انھیں اس لیے سننا چاہتا تھا کہ ان کے پاس تازہ خبر ہو گی لیکن وہ تو خود نسیم انور بیگ کے پاس آتے کہ خبر تو وہ ہے جس کا فیصلہ قضا و قدر کے کارپردازان کرتے ہیں۔ وہ خواب ایسے دیکھتے جس کی تعبیر کی تکمیل کا راستہ موجود ہو۔ وہ اس راستے کا تعین بھی کرتے اور ایک جرنیل کی طرح اس پر چلنے' دشمن سے ہوشیار رہنے اور وقت پر وار کرنے کی پوری حکمت عملی وضع کرتے۔

دنیا میں تاریخ سے زیادہ متعصب اور گمراہ کن مضمون کوئی نہیں۔ تعصب کے ضمیر میں گندھا ہوا اس کا آٹا بدبودار اور متعفن زدہ ہے۔ دو یا تین ہزار سال تو دور کی بات ہے آج ہم کسی شخصت یا واقعہ کی تاریخ لکھنا چاہیں تو ہمارے تعصبات ہمیں سچ نہیں لکھنے دیتے۔ کیا ہم آج ضیاء الحق کے بارے میں سچ لکھ اور بول سکتے ہیں۔ وہ جنھیں اس نے اقتدار کی مسند بٹھایا اور وہ آج بھی بیٹھے ہوئے ہیں' ان کی بھی زبانیں گنگ ہیں۔ کیا اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر جیسے کرداروں کے بارے میں کبھی سچ بولا جائے گا۔ شاید نہیں اور خصوصاً اس کارپوریٹ سرمائے سے قائم میڈیا اور جمہوری نظام میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل حمید گل کی شخصیت بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہے کہ جس پر بات کرنے والے سیکولر عینک کے تعصب اور جمہوری فریب زدگی کے قلم سے مسلح ہیں لیکن اس مملکت خداداد پاکستان سے محبت اور اس کے مستقبل سے امید گل صاحب کی شخصیت کا ہی خاصہ تھی۔

ان پر تنقید کرنے والے سیاست دان یا ان کے پروردہ وہ ہیں جن پر اس ملک میں اقتدار کے دروازے بند ہوں تو کوئی بھارت کے ٹینکوں پر چڑھ کر آنے کی خواہش رکھتا ہے تو کوئی امریکا اور سعودی عرب کے اثرورسوخ کی چھتری تلے اس ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ حمید گل صاحب کا ضمیر ہی اس وطن سے محبت میں گندھا ہوا تھا۔ 92ء ہجری میں امام نفس زکیہ کے صاحبزادے عبداللہ شاہ غازی جس جہاد ہند کی بشارتیں اپنے نانا سید الانبیاء ﷺ کے حوالے سے سنتے آئے تھے اور اس کی امید پر کراچی کے ساحلوں پر آ کر آباد ہو گئے تھے' جنرل حمید گل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ افغان جہاد کا کونسا ایسا سپاہی ہے جو ان کا نام احترام سے نہ لیتا ہو' افغان جہاد کے بارے میں ان کا ایک موقف تاریخ کی اتنی بڑی سچائی ہے کہ اگر کبھی کسی نے پاکستان کی تاریخ تعصب کی عینک اتارکر لکھی تو وہ حمید گل صاحب کے اس موقف پر مہر تصدیق ثبت کرے گا کہ ''افغانوں نے چودہ سال قربانی دے کر پاکستان کے بقا اور تحفظ کی جنگ لڑی''۔ جن عظیم دانش وروں اور کافی کے تلخ گھونٹ اور مشروب مغرب کے اثر میں لکھنے والوں کو اس بات کا اندازہ نہیں وہ صرف ایک بار تاجکستان' ازبکستان' کرغستان' کازاکستان' ترکمانستان اور آذربائیجان کی مسلمان ریاستوں میں جا کر دیکھ لیں جن پر سوویت یونین نے قبضہ کیا تھا۔

ظلم و بربریت کی کہانیاں تو آپ کو ہر بوڑھا سنائے گا کہ 1917ء کوئی زیادہ دور کی بات نہیں لیکن غربت و افلاس اور بھوک اور بیماری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ سوویت یونین کے قبضے نے وہاں کیا کچھ کیا۔ دوشنبے جیسے شہر میں صرف دو سڑکیں شہری سہولیات رکھتی' باقی شہر میں عورتیں آج بھی ربڑ کے مشکیزے اٹھائے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ بڑے بڑے ثقافتی مرکز اور غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے شہر اور دیہات۔ ان لوگوں کی نسل کشی جنھیں دین کا تھوڑا سا بھی علم حاصل تھا۔ پچھتر سال تک مسجدوں پر تالے' کئی ایک کو گوداموں میں بدل دیا گیا۔ لوگ تہہ خانوں میں چھپ کر قرآن کی تعلیم بچوں کو دیتے۔ دسمبر 1979ء میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو پاکستان کے تمام ترقی پسند جو آج امریکا کی جھولی میں بیٹھے ہیں' اس وقت روس کے خوشہ چین تھے۔ مسکراتے ہوئے طنز کرتے تھے کہ وہ دیکھو تمہارے دروازے تک آ گیا' اب ڈیورنڈ لائن عبور کرے گا اور تم لوگ داڑھیاں منڈوا کر اپنی شناخت چھپاتے پھرو گے۔ کوئی عبدالرحمن سے رحمانوف بن جائے گا اور کوئی نذیر سے نذیروف۔ سرخ سویرا طلوع ہونے والا ہے۔

بیس لاکھ افغان اپنی جانوں کی قربانی نہ دیتے۔ افغانستان کو سوویت یونین کا قبرستان نہ بناتے تو نہ حمید گل کی آئی ایس آئی ہوتی اور نہ ہی نواز شریف کی مسلم لیگ' نہ الطاف بھائی کی گونج ہوتی اور نہ مولانا فضل الرحمن کاجبہ و دستار۔ جس کو حمید گل کی اس سچائی پر یقین نہیں' وہ ایک دفعہ وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کا دورہ کرکے دیکھ لے۔ ایسا سچ بولنے والا ٓج ہم میں نہیں رہا' لیکن میرا ایمان ہے کہ جس راستے کے وہ راہی تھے' ان کا استقبال اس راستے پر گامزن ارواح نے کیا ہو گا جو رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کی امین تھیں۔ ''دو لشکروں پر جہنم کی آگ حرام' ایک وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا اور دوسرا وہ جو جہاد ہند میں حصہ لے گا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں