کرپشن کی بہتی گنگا

عالمی سطح پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہنے والا لفظ ’کرپشن‘ ہے اور یہ مسئلہ ساری دنیا کو درپیش ہے،


ذوالقرنین زیدی September 04, 2015

FAISALABAD: عالمی سطح پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہنے والا لفظ 'کرپشن' ہے اور یہ مسئلہ ساری دنیا کو درپیش ہے، مگر اس سلسلے میں جو مقام ہمیں حاصل ہے وہ کسی اورکو نہیں۔ مہنگائی، گراں فروشی، ناپ تول میں کمی، دھوکا، فراڈ،لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، راہزنی، بھتہ خوری، قتل و غارت گری، ظلم و بربریت، جبرو استحصال، نا انصافی، لاقانونیت وغیرہ یہ سب اس کرپشن ہی کی تو دین ہیں اور اسی کرپشن کے بطن سے جنم لے کر ہم پر مسلط ہونے والے نا اہل، غفلت شعار، ناعاقبت اندیش،اقربا پرور، بدعنوان اور رشوت خور عناصر نہ صرف اس کرپشن کی پیدائش اور افزائش کا موجب ہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے روپ میں ان کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو اختیارات اور وسائل کی بندر بانٹ کے ذریعے اس کے راج کے تحفظ کا ضامن بھی ہے۔

اسی گٹھ جوڑ نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے کہ جدھر بھی دیکھیں مارا ماری کا دور دورا ہے، قانون نام کی کوئی چیز نہیں، سزا اور جزا کا تصور نہیں اور اس بے ہنگم صورتحال میں عوام ہر حد عبور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اس سنگین صورتحال تک پہنچنے اور اس پر قابو پانے میں ناکامی کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افراد کی کمزوری ہے کیونکہ جرم کا ارتکاب کرنے والا اسی وقت قانون سے ڈرتا ہے جب اسے سزا کاخوف ہو، جب مجرم اس ڈر سے آزاد ہو تو ہر اس حد تک جاتا ہے۔

جہاں تک اس کا بس چلے، حتی کہ صورتحال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ جرائم عام اورانتہائی سہل ہوجاتے ہیں، ایسی صورتحال پر کوئی ایماندار افسر بھی قابو نہیں پاسکتا بلکہ اپنا دامن بچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے،سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں احتساب کا راگ وہی لوگ الاپ رہے ہیں جو خود کرپٹ ہیں۔ 'چور بھی کہے چور چور' کے مصداق ہر کرپٹ دوسرے کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ یقینا کوئی بھی ایک شخص ایسا نہیں ہو گا جو احتساب کا مخالف ہو، ایسا شاید اسی لیے ہے کہ احتساب سے بچنے کے لیے اور کوئی نسخہ موجود نہ ہو۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے وفاقی سطح پر اس وقت 7 ادارے کام کر رہے ہیں۔

ان میں پارلیمانی احتساب کا سب سے بڑا ادارہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، قومی احتساب بیورو، وفاقی محتسب، وفاقی ٹیکس محتسب آئینی ادارے ہیں، ان کے ساتھ پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن اور ایف آئی اے بھی شامل ہیں جب کہ ان کے علاوہ صوبوں میں انسداد بدعنوانی کے دیگر ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔

اینٹی کرپشن کے موثر قوانین اور متعلقہ اداروں کی موجودگی کے باوجود کرپشن کا عفریت قابو میں آکر نہیں دیتا بلکہ جن حلقوں پر حالات سدھارنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ان کے رویے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کرپشن سے ملک کو پہنچنے والے نقصان یا عوام کے مسائل میں روز بروز اضافے کی کوئی پرواہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کی کوششوں میں کامیابی کے لحاظ سے پاکستان ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔یہ بات ہے اگرچہ سابق دور حکومت کی، جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، ایف بی آراورٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سمیت دیگر اداروں کی رپورٹس کیمطابق ملک میں یومیہ کرپشن کاحجم 10 سے 12 ارب روپے تھا۔

نیب کے مطابق ملک میں 7ارب روپے روزانہ کرپشن ہورہی تھی، جوکہ صوبوں میں ہونے والی کرپشن کے علاوہ تھی، گویا صوبوں کی کرپشن بھی شامل کرلی جاتی تو نیب کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشماربھی 12 ارب روپے تک ضرور پہنچ جاتے(یعنی سالانہ کرپشن کا حجم ملکی بجٹ سے بھی زائد تھا)۔ اسی طرح موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو وفاقی وزیر خزانہ نے عہد کیا کہ وہ سوئس بینکوں میں رکھے پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر(جو پاکستان کے مالی بجٹ 40ارب ڈالرسے5گنا زیادہ ہیں) کا کالادھن وطن واپس ضرور لائیں گے، مگر دو سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود حکومت نے کچھ نہیں کیا، الٹا اس مسئلے پر چپ سادھ لی۔ گزشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جننس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے اربوں روپے کا کالا دھن بیرون ملک بھجوانے والے 700پاکستانیوں کی تفصیلات حاصل کرنے کا انکشاف کیا۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جننس اینڈ انویسٹی گیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دبئی میں پاکستانیوں کی جانب سے بھجوایا جانے والا کالادھن سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے کالے دھن سے دس گنا زیادہ یعنی 2000 ارب ڈالر ہے (جو پاکستان کے مالی بجٹ 40ارب ڈالرسے50گنا زیادہ ہے)۔ رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ پاکستان سے بیرون ملک کالادھن بھجوانے کے لیے دبئی اس وقت کالے دھن کا سب سے بڑا حب بنا ہوا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حکومت نے آپریشن ڈیزرٹ بڑی تیزی سے شروع کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے آج کل کرپشن کے خلاف مہم زوروں پر ہے۔

ملک کے سادہ لوح عوام خوش ہیں کہ اب پاکستان میں کرپشن ختم ہوجائے گی۔کیسے نادان ہم لوگ بھی، بھلا جس ملک کی معیشت کا دو تہائی حصہ کالے دھن پر مشتمل ہو وہاں ایسی فضول باتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟، کیا کسی معیشت کا دوتہائی حصہ ختم کردینے کے بعداس ملک کی اقتصادی صورتحال کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے؟ کیایہ باتیں آپ کو عجیب نہیں لگتیں کہ کسی ملک کے حکمرانوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کو پیش کیے گئے مالی حیثیت کے گوشوارے کھلے عام حقائق کی نفی کرتے ہوں بلکہ ان کے ظاہر کردہ کل اثاثہ جات ان کی سالانہ آمدنی سے بھی انتہائی کم ہوں؟

اور وہی لوگ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے عزم کا اعادہ بار بار کی تکرار کے ساتھ کررہے ہوں؟ یہ باتیں مفروضوں تک تو بہت اچھی ہیں مگر حقائق سے بہت دور۔خیر اس کے باوجود بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہے، اکثریت کا خیال ہے کہ اس مہم کے پیچھے پاکستان آرمی کا ہاتھ ہے، پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔

یقینا حکومت بھی کسی حد تک مخلص ہوگی اور اس مہم کے پیچھے فوج کا ہاتھ بھی۔ یہی امید کی جاسکتی ہے کہ سندھ پولیس کی طرح دیگر اہم ادارے جن میں کرپشن کے خلاف احتساب کا خود ساختہ رسمی سا نظام موجود ہے، احتساب کا عمل انھی کے سپرد کردیا جائے گا، اور یہ ادارے بھی محکمہ پولیس کی طرح اپنے اندر سے کالی بھیڑوںکا صفایا اپنے تئیں خود ہی کرلیں گے اور یوں محکمہ پولیس، حکومت سندھ بلکہ پورے ملک سے کرپشن خود بخود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں