ملاوٹ اور مہنگائی کس کی ذمے داری

مہنگائی اور ملاوٹ ایسے مجرمانہ عوامی مسائل ہیں، جن سے صرف حکمران متاثر نہیں ہوتے


Muhammad Saeed Arain September 23, 2015

مہنگائی اور ملاوٹ ایسے مجرمانہ عوامی مسائل ہیں، جن سے صرف حکمران متاثر نہیں ہوتے اور صرف اور صرف وہ عوام متاثر ہوتے ہیں، جن کے متعلق حکمران مہنگائی اور ٹیکس بڑھاتے ہوئے یہ سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ اس حکومتی اقدام سے عوام متاثر نہیں ہوں گے۔

یہ جھوٹ اب تک کی تمام حکومتوں میں مسلسل بولا جا رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ ہر حکومت کے نزدیک صرف دو فیصد طبقوں سے تعلق رکھنے والے حکمران اور اربوں پتی، کھربوں پتی اور کروڑوں پتی ہی ہیں جو واقعی بڑھتے ٹیکسوں اور شدید مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتے جب کہ حقیقت میں 98 فیصد عوام تو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے عذاب سے بری طرح متاثر ہیں۔

جن کی آمدنی کم بڑھتی ہے مگر اخراجات بہت زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی اور ملاوٹ اب صرف صوبائی مسئلہ ہے جس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وفاقی حکومت صرف تماشا دیکھنے کے لیے رہ گئی ہے اور وہ اگر کبھی امن و امان، مہنگائی، ملاوٹ کی طرف توجہ دلائے تو صوبائی خود مختاری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

عوام مہنگی چیزیں خرید کر بھی ملاوٹ اور مضر صحت اشیا سے محفوظ نہیں ہیں اور ملک میں برائے نام ہی ایسے ادارے باقی رہ گئے ہیں جن کی مہنگی اشیا خرید کر بھی عوام یہ نہیں جان سکتے کہ وہ خالص اشیا خرید رہے ہیں یا نہیں۔

مہنگائی سے زیادہ اہم اور سنگین مسئلہ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کا ہے جس کے لیے کلام پاک میں بھی ممانعت کا حکم واضح طور پر موجود ہے مگر ہمارے حکمران لاعلم ہیں۔

ملاوٹ کی گئی اور حرام اور مضر صحت اشیا جو عوام کھا رہے ہیں اور بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، اس کی فکر صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ہوئی اور انھوں نے اپنے صوبے کے لیے جو اچھے کام کیے، انھوں نے عوام کے لیے سب سے اچھا کام پنجاب فوڈ اتھارٹی بنا کر کیا ہے۔

اور صوبے کو ملاوٹ اور مضر صحت اشیا سے پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اب لاہور کے بعد پنجاب بھر میں ملاوٹی اور مضر صحت اشیا تیار کرنے والوں کے خلاف سرکاری مہم عروج پر ہے مگر شاید یہ خبر ابھی تک دیگر وزراء تک نہیں پہنچی کہ وہ بھی اپنے صوبے کے عوام کو صحت دشمن اشیا خوردنی سے محفوظ کرنے کا سوچ سکتے مگر انھیں خود ہوش کہاں ہے۔

ملاوٹ روکنے کی ذمے داری ملک میں بلدیاتی اداروں اور مہنگائی روکنے کی ذمے داری ضلع انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے مگر ضلع انتظامیہ کو ہوش صرف رمضان المبارک میں اور وہ بھی محض دکھاوے اور جرمانوں کے ذریعے اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے آتا ہے جب کہ بلدیاتی اداروں میں مجسٹریٹ برائے نام ہیں جب کہ ہر بلدیاتی ادارے کا فوڈ ڈپارٹمنٹ صرف کمائی کے لیے رہ گیا ہے۔

پنجاب کے علاوہ کسی اور وزیر اعلیٰ نے ملاوٹ اور مضر صحت اشیا کی تیاری اور فروخت کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ کراچی اور کوئٹہ میں وہاں کی انتظامیہ نے ملاوٹ اور مضر صحت اشیا کے خلاف کارروائی کی ہے جب کہ عمران خان کو ابھی دھرنوں اور احتجاج سے فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنے صوبے کے پی کے میں کوئی فوڈ اتھارٹی قائم کرائیں تا کہ عوام کو ملاوٹ اور مضر صحت اشیا سے نجات مل سکتی۔

سندھ اور بلوچستان میں بھی اب تک فوڈ اتھارٹیز کے قیام کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ پنجاب کے بعد اب دکھاوے ہی کے لیے وہاں کی مقامی انتظامیہ حرکت میں تو آئی ہے مگر پنجاب جیسی موثر کارروائی اور چھاپے کسی اور صوبے میں نظر نہیں آئے۔ لاہور کے بعد اب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپے پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں میں شروع ہوئے ہیں اور ضرورت ہے کہ ملاوٹ اور مضر صحت اشیا کی تیاری اور خرید و فروخت کا سلسلہ چھوٹے شہروں تک جلد وسیع کیا جائے۔

بڑے شہروں میں تو اب یہ مذموم کاروبار کرنے والے محتاط ہوئے ہیں مگر ملک بھر کے چھوٹے شہروں میں کیا ہو رہا ہے، اس کی کسی کو فکر نہیں ہے جہاں غذا کے نام پر زہر کھایا جا رہا ہے ملک بھر میں شادی اور تقریبات کے موقعے پر اب اپنے گھروں اور اپنی نگرانی میں کھانے پکوانے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے اور پکوان سینٹر فروغ پا رہے ہیں اور اب چھوٹے شہروں میں بھی تقریبات کے کھانے پکوان سینٹرز پر پکوائے جا رہے ہیں۔ بڑے شہروں کے بعد فوتگی کے کھانے بھی اب چھوٹے شہروں میں پکوان سینٹرز سے بنوائے جاتے ہیں اور سب کچھ پکوان سینٹرز پر چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں کے کھانے وصول کر کے بل دے دیا جاتا ہے۔

پکوان سینٹرز کی حالت کو کوئی جا کر دیکھنا ضروری نہیں سمجھتا اور جو پک کر آ جائے وہ مہمانوں کو کھلا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کھانے کھا کر بیمار اور بے ہوش ہو جانے کی خبریں میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ پکوان سینٹروں پر کھانوں کا معیار اور مقدار کوئی چیک نہیں کرتا جس کی وجہ سے یہ کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔

بلدیاتی اداروں میں جو فوڈ انسپکٹر یا ڈائریکٹر ہوتے ہیں وہ ہوٹلوں سے مفت کھانے کھاتے ہیں اور باربی کیو گھر لے جاتے ہیں اور چیک ہونے کے لیے سرکاری لیبارٹریوں میں بھجوا دیتے ہیں جہاں ملاوٹ کرنے والے معاملہ طے کر لیتے ہیں اور لیبارٹری رپورٹ میں اکثر ملاوٹ ثابت نہیں ہوتی اور فوڈ انسپکٹروں اور لیبارٹری والوں سے معاملات بہتر رکھنے والوں کے مال میں معمولی گڑبڑ بھی ہو تو ان کے کیس چالان کر دیے جاتے ہیں۔

جہاں معمولی جرمانوں کی ادائیگی سے جان چھڑا کر محفوظ رہنے کے معاملات طے کر لیے جاتے ہیں۔ حکومتوں کی اہم ذمے داری مہنگائی کو روکنا اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے مگر کوئی صوبائی حکومت اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہی اور اوپر سے ملاوٹ کا عذاب بھی عوام بھگت رہے ہیں اور کسی وزیر اعلیٰ کو یہ احساس نہیں ہے۔ اس لیے صوبائی حکمران اب بھی عوام کو درپیش مشکلات کا احساس کر لیں وگرنہ مہنگائی اور ملاوٹ کے ستائے عوام انھیں مسترد کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں