اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کی صوبوں کو منتقلی بزنس ماڈل بنانے کا فیصلہ

تجویز کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے بھی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی


Irshad Ansari September 24, 2015
ماڈل تیار کرکے آئندہ اجلاس میں جائزے کے لیے پیش کیاجائے گا۔ فوٹو: فائل

قومی مالیاتی کمیشن کے ورکنگ گروپ نے اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا اختیار صوبوں کو دینے کے حوالے سے جامع بزنس ماڈل تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس تجویز کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے بھی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مذکورہ ماڈل تیار کرکے این ایف سی کے ورکنگ گروپ کے اگلے اجلاس میں جائزے کے لیے پیش کیاجائے گا جبکہ ورکنگ گروپ کا اگلا اجلاس پنجاب میں ہوگا جس کے انتظامات حکومت پنجاب کریگی۔ اس ضمن میں ''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق یہ فیصلہ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والے نویں قومی مالیاتی کمیشن کے ورکنگ گروپ کے پہلے اجلاس میں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں صوبوں کی جانب سے جس طرح اٹھارہویں ترمیم کے تحت سروسز پر جی ایس ٹی کا اختیار صوبوں کو دیا گیا ہے، اسی طرح اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے اور وصول کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو دینے کے مطالبہ کیا گیا اور اس کیلیے صوبوں کا موقف تھا کہ اس اقدام سے صوبے مالی لحاظ سے خودکفیل ہوجائیں گے، اپنے وسائل خود اکٹھے کرسکیں گے اور صوبوں و وفاق کے درمیان قابل تقسیم محاصل کے پُول سے حصے کے حوالے سے بھی کسی قسم کے تنازعات پیدا نہیں ہونگے۔

تاہم ''ایکسپریس'' کو دستیاب اجلاس کے منٹس آف میٹنگ کے مطابق اجلاس میں صوبوں کی جانب سے سروسز کی طرح اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا اختیار صوبوں کو دینے کے حوالے سے ایک جامع بزنس ماڈل تیار کرنے کی تجویز دی گئی جس پر یہ طے پایا کہ اشیا پر صوبائی سطح پرسیلز ٹیکس وصولی سے متعلق جامع اسٹڈی کروائی جائیگی۔

دستاویز کے مطابق اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا جامع بزنس ماڈل تیار کرنے کا ٹاسک سندھ حکومت کو دیا گیا ہے کہ اور سندھ حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا جامع بزنس ماڈل تیارکرکے نویں قومی مالیاتی کمیشن کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے تاکہ اس جامع بزنس ماڈل کے بارے میں معنی خیز تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ تجویز کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے بھی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں