ریاست کا ناقص چوتھا ستون

میڈیا اس انداز سے اس خبر کا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہے گویا پاکستان میں آج سے پہلے کسی جوڑے کی طلاق ہی نہیں ہوئی۔


جاہد احمد October 31, 2015
ایک بے جوڑ شادی کے منطقی انجام کی خبر کو ہزاروں زلزلہ زدگان پر فوقیت دینا تماش بین معاشرے کے نمائندہ ادارے کی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے.

حیران ہوا جائے یا پریشان ہوا جائے، پاکستانی معاشرہ اپنے طرزِ عمل میں حیران و پریشان کردینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اجتماعی طور پر کم تعلیم یافتہ ہونے اور قدامت پسند ذہنیت رکھنے کے باعث تمام اہم معاملات میں عمومی طور پر معاشرتی رویہ خاصا پریشان کن ہوتا ہے۔

معاشرتی رویوں کا سیدھا اثر کسی بھی معاشرے کے اداروں میں دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح ادارے اپنے رویوں کا اثر اپنے معاشرے پر بھی ڈالتے ہیں۔ یہ دو طرفہ ٹریفک ہے جو ان دونوں اکائیوں کے ارتقائی عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ان کی سمت اور ترجیحات کا تعین بھی کرتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر غیر سنجیدہ اور تماش بین رویے کا حامل ہے، جس کا اثر اس کے نمائندہ اداروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ حکومتی اداروں سے لے کر سرکاری دفاتر اور سرکاری دفاتر سے لے کر ریاستی ستونوں تک یہ غیر سنجیدگی اور تماش بین رویہ آئے دن بطور قوم ہمارا سر ندامت سے جھکاتا ہے، لیکن کوئی احساس تو ہو!



 

ریاستی ستونوں کی بات کریں تو پاکستانی میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔ ریاست کے ستون کی حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے امور درست طریقے سے چلائے جانے کے لئے اس ستون کی کارکردگی کا بہترین ہونا انتہائی شرط ہے، ستون کی کارکردگی کمزور ہوگی تو ریاست کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ ریاستی ستون ہونا ٹوئیٹر کا کوئی ٹرینڈ نہیں بلکہ اعلی ترین ذمہ داری کا ریاستی تمغہ ہے۔ میڈیا چوتھا ریاستی ستون ہونے کا دعویدار ہے تو اس کو ویسی ہی ذمہ داری کا ثبوت 24 گھنٹے اور سال کے 365 دن دینا بھی چاہیے۔

عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کی خبر کیا بریک ہوئی گویا بھونچال سا برپا ہوگیا۔ میڈیا اور عوام جس انداز سے اس خبر کا ڈھول پیٹنے میں مصروف ہیں یوں معلوم ہوتا ہے شاید پاکستان کا سب سے اہم اور آخری مسئلہ یہ طلاق ہی ہے یا پھر پاکستان میں آج سے پہلے کسی جوڑے کی طلاق ہی نہیں ہوئی، احمق پھپھوندوی صاحب کا شعر کسی ایسے موقع کے لئے ہی ہے کہ،
بلبلیں کیا ساتھ دے سکتی ہیں نالوں کا

میرے زاغ میرا ہمنوا ہو کر پریشاں ہوگیا

ریٹنگ کے بھنور میں گھومتے پاکستانی میڈیا کا رویہ حد درجہ قابلِ افسوس اور پریشان کن صورتحال کی غمازی کرتا ہے، ریاستی ستون اگر ایک طلاق کی خبر کی مار ہے تو ریاست کی کارکردگی کا ﷲ ہی حافظ ہوا۔ پاکستانی میڈیا کو اپنے ریاستی ستون ہونے کی حیثیت کا ایک بار تسلی سے از سر نو جائزہ لینے کی شدت سے ضرورت ہے۔ چند روز پہلے آیا ہولناک زلزلہ اورعمران خان و ریحام خان کی طلاق دو ایسے واقعات ہیں جو چند دن کے وقفے سے ظہور پذیر ہوئے۔ ان دونوں واقعات میں میڈیا کے کردار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس اہم ریاستی ستون کی ترجیحات اور سنجیدگی کا تعین با آسانی کیا جاسکتا ہے۔



زلزلے کی سائنسی وجوہات بیان کرنا نہ صرف عوام الناس میں اس قدرتی عمل کے بارے میں شعور پیدا کرتا ہے بلکہ، حکومتی اداروں کے لئے مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینے میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ عوام جس قدر باشعور ہوگی اسی قدر اپنے نمائندہ یا ریاستی اداروں سے کارکردگی طلب کرے گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میڈیا نے اس شعوری عمل کو بھی سائنس اور مذہبی عقائد کی بحث میں تبدیل کرکے نہ صرف نازک وقت میں معاشرے میں ابہام اور تفریق پیدا کی بلکہ قدرتی عوامل اور آفات سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی تیاری کرنے کے عمل کی افادیت کو نچلی سطح پر سمجھنے میں بھی نقصان پہنچایا، یقیناً یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ انہی رویوں کے سبب 2005 کے زلزلے کے بعد سے لے کر اب تک پاکستانی ادارے اور معاشرہ ان قدرتی عوامل سے نمٹنے میں کسی قسم کی موثر تیاری اور کاغذی کاروائیوں سے بڑھ کر حقیقی معنوں میں کوئی پیش رفت کیوں نہیں کرسکا ماسوائے چند غیر موثر ادارے تخلیق کرنے کے۔۔۔۔۔

ایک بے جوڑ شادی کے منطقی انجام کی خبر کو ہزاروں زلزلہ زدگان بے گھر و دکھی پاکستانیوں کے تکلیف دہ مسائل پر فوقیت دینا تماش بین معاشرے کے نمائندہ ادارے کی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے، ان زلزلہ زدگان کو صبر کرنا ہوگا کہ جب تک عوام کے سر سے مادرِ ملت ثانی اور بھابھی اول کی طلاق کا بھوت اتر نہیں جاتا اور ریاست کے چوتھے ستون کو ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایک بار پھر زلزلہ متاثرین کے کرب زدہ چہرے، ٹھٹھرتے جسم، ملبہ بنے گھر اور مسائل کی کوریج کی ضرورت نہ آن پڑے تب تک انتطار فرمائیے کہ آپ کے اپنے طلاق کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

https://twitter.com/RamizRaja92/status/660058041598017537

ریحام خان کون تھیں اور کون نہیں، ان کی حقیقت کیا تھی، کس مقصد سے میدان میں اتری تھیں، اچانک سے آئیں تھیں اور یونہی اچانک سے چلی بھی گئیں، یہ سب وہ سوالات ہیں جن پر بحث کے لئے بعد میں بھی میڈیا کو بہت وقت ملے گا، فی الوقت ریاستی ستون ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ میڈیا کی تمام تر توجہ زلزلہ متاثرین کے مسائل اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر مرکوز رہے جب تک کہ متاثرین کے مسائل واقعتًا حل نہ ہوجائیں، کیونکہ میڈیا ہی وہ واحد ادارہ ہے جو عوام اور حکومت کی توجہ اس سانحے پر مرکوز کرا سکتا ہے۔

معلومات کی برقت رسائی نے ترقی یافتہ معاشروں کے ارتقاء میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ آج کے دور میں بروقت معلومات کا حصول اصل طاقت ہیں، یہ میڈیا ہی ہے جو پریشان کن رویوں کو مزید فروغ دے سکتا ہے یا انہی پریشان کن رویوں کا رخ موڑ کر حیران کن رویوں میں تبدیل بھی کرسکتا ہے جس کی اعلی مثال 2005 کے زلزلے کے بعد عوامی رویہ اور امدادی کاروائیاں تھیں، صرف احساس دلانے اور ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔

[poll id="742"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔