مجھے بھی ’تجربے‘ میں ماسٹرز کرنا ہے

جناب ماسٹرز کرنےکے بعد اگر نوکری ملے گی تب ہی توتجربہ حاصل ہوگا؟ جب تک نوکری نہیں ملےگی تو طلبہ تجربہ کہاں سے لائیںگے؟


زوہیب حسن January 16, 2016
تجربہ وہ شعبہ ہے جس میں میرے جیسے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان داخلہ لینے کے لئے بیتاب ہیں۔

لاہور: میں کسی ایسی درسگاہ میں داخلے کا خواہش مند ہوں جو تجربے میں ماسٹرز کرواتی ہو۔ حیران ہو رہے ہیں آپ؟ ارے بھائی اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ آپ اخبار کا مطالعہ نہیں کرتے کیا؟ آئے دن ملازمت کے اشہارات نظر سے گزرتے ہیں۔ ان اشتہارات میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ تجربے کا بھی تقاضا کیا جاتا ہے۔ اب میں تعلیم تو مکمل کرچکا ہوں لیکن تجربے جیسے موتی سے ابھی تک محروم ہوں۔

سوچ رہا ہوں جہاں اتنے برس محنت کرکے چار اسناد کمائی ہیں، وہاں دو سال کسی اچھی درسگاہ میں داخلہ لے کر تجربے میں بھی ماسٹرز کرلوں۔ اس طرح میں ایک کڑوا گھونٹ پی کر میں اپنے شعبے میں ملازمت کا اہل ہوجاؤں گا۔

مجھے اکثر ان نوجوانوں پر حیرت ہوتی ہے جو کئی سالوں سے صرف تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگار بیٹھے ہیں۔ ان نوجوانوں کی سستی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بھئی اگر سفارش نہیں ہے تو وقت ضائع کرنے کے بجائے تجربے میں ڈگری حاصل کرلو۔ اس طرح سب بیروزگار نوجوان ملازمت کے لئے اہل ضرور ہوجائیں گے۔

لیکن ایک مسئلہ ہے دوستوں! پاکستان میں کوئی بھی درسگاہ تجربے میں ماسٹرز نہیں کرواتی۔ حالانکہ یہ وہ شعبہ ہے جس میں میرے جیسے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان داخلہ لینے کے لئے بیتاب ہیں۔ اگر کامیابی کا زینہ تجربے کی کسوٹی پر سے گزرتا ہے تو پاکستان کا ہر نوجوان اس میں ماسٹرز کرنے کو تیار ہے۔ بس کوئی رحم دل انسان ہم نوجوانوں کو اس یونیورسٹی کا نقشہ سمجھا دے۔

میری موجودہ حکومت سے پُر زور گذارش ہے کہ ہنگامی سطح کا اجلاس بلائے اور وسیع تر قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے چاروں صوبوں میں تجربہ کی یونیورسٹیوں کے لئے فنڈ جاری کرے۔ حکومت کے اس انقلابی اقدام سے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زندگی بدل جائے گی۔

تجربے سے یاد آیا کہ بحیثیت قوم تجربات کرنا تو ہماری پرانی عادت ہے۔ کبھی جمہوریت سے تجربات تو کبھی مذہبی اور مسلکی تفریق کے تلخ تجربات۔ کبھی بجلی کے منصوبوں پر تجربات تو کبھی گیس کے منصوبوں سے۔ کبھی ریلوے کے مردہ جسم میں روح پھونکنے کے تجربات تو کبھی ڈیم بنانے کے۔ کبھی اسٹیل مل چلانے کے تجربات تو کبھی پل بنانے کے۔ کبھی انصاف خریدنے کے تجربات تو کبھی انصاف بیچنے کے۔ غرض یہ کہ ایک لمبی نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔
حقائق پر ایک نظر

چلئے ایک نظر اعداد و شمار پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ مالی سال 2015 میں بیروز گاری کی شرح پچھلے 13 سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔ یہ شرح 8.3 تھی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری کی شرح نوجوان طبقے میں سب سے زیادہ ہے۔ نوجوان طبقے میں بیروزگاری کی یہ شرح بوڑھے طبقے سے 6 گنا زیادہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق نوجوان طبقہ پاکستان کی آبادی کا 63 فیصد بنتا ہے۔ خیال رہے کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں کا شمار نوجوان طبقے میں کیاجاتا ہے۔

تجربے کے عنصر کا نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے براہ راست تعلق ہے، کیسے؟ آئیں ہم سمجھاتے ہیں۔ تکنیکی بنیادوں پر پرکھا جائے تو پاکستان میں ایک نوجوان 22 سال کی عمر میں ماسٹرز کرتا ہے۔ اکثر اشتہارات کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو ان کا مواد کچھ یوں ہوتا ہے۔
عمر :18 سے 25 سال
تعلیم : ماسڑرز
تجربہ :5 سے8 سال

اول 18 سال کی عمر میں کوئی ماسٹرز کرتا نہیں۔ دوئم 22 سال کی عمر میں ماسٹرز کرنے کے بعد اگر نوکری ملے گی تب ہی تو تجربہ حاصل ہوگا۔ سوئم اگر کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل بھی جائے تو مطلوبہ تجربہ حاصل کرتے کرتے ہی امیدوار کی عمر 28 سال ہوجائے گی۔ یعنی تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے دونوں طرف نا امیدی کی کھائی ہے۔
مسئلے کا حل

اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کا کوئی قلیل مدتی حل نہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کو تعلیمی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ دوئم نجی اور سرکاری شعبوں میں بھرتیوں کے قواعد کا از سر نو جائزہ لے کر انہیں عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ نوجوان طبقے کی تجربے کے عفریت سے گلو خلاصی ہوسکے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل سفارشات پیش خدمت ہیں۔

  • انٹر کے بعد پرایئویٹ گریجوئشن کا خاتمہ کیا جائے اور 4 سالہ آنرز پروگرام کو ہی ماسٹرز کے مساوی سمجھا جائے۔

  • تمام درسگاہیں طالبعلم کے لئے متعلقہ شعبے میں ایک سالہ انٹرن شپ کو صنعتوں کے اشتراک سے ممکن بنائیں۔ اس طرح طالبعلم دورانِ تعلیم ہی تجربہ حاصل کرلے گا۔

  • تمام نجی اور سرکاری اداروں کو ہر سال نئی بھرتیوں کا پابند کیا جائے۔
    ان بھرتیوں کی شرط تجربے کے بجائے انٹرنشپ ہو۔

  • ملازمت کا حد دورانیہ 30 سال مقرر کیا جائے۔ بیشتر اوقات جو لوگ 20 سال کی عمر میں بھرتی ہوتے ہیں۔ وہ 40 سال کی عمر تک ملازمت جاری رکھتے ہیں اور 60 سال کی عمر کے بعد بھی اثر و رسوخ کے استعمال سے ملازمت سے چمٹے رہتے ہیں۔ اس منفی رجحان کی موثر قانون سازی کے ذریعے حوصلہ شکنی ضروری ہے تاکہ ملازمت کے لاکھوں نئے مواقع ہر سال پیدا ہوں۔


حاصل بحث

نوجوان کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی بھرتی کے معیار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کے مساوی تعلیم حاصل کرے۔ موجودہ نظام تعلیم میں تجربہ حاصل کرنا اس کی ذمہ داری نہیں۔ اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے ہر سال یہ قوم لاکھوں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ذہنوں کو ضائع کر رہی ہے۔ خدارا نوجوانوں سے تجربہ مانگ کر انہیں تجربوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

[poll id="896"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں