
گول مٹول، چہرے پر ٹوکروں حمق برستا ہوا، آنکھوں میں سادہ لوحی لہریں لیتی ہے۔ 'الن' شہری ہے جو چرب زبانی سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور 'ننھا' وہ دیہاتی جو شہر میں آ گیا ہے اور 60ء کی دہائی کے اس ہندوستانی گیت کی تصویر ہے کہ ''سب کچھ سیکھا ہم نے، نہ سیکھی ہوشیاری، سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی'' الن لوگوں کے لیے جال بچھاتا ہے۔ ننھا کارٹون فلم کے جیری کی طرح اسے اپنے دانتوں سے کتر دیتا ہے، جب شکار اڑ جاتا ہے تو الن غصے میں بھوت ہو جاتا ہے، ننھے کو دھول لگاتا ہے جس پر وہ بیچارگی سے اپنی کم عقلی کا اعتراف کرتا ہے۔
یوں تو کمال احمد رضوی نے ٹیلی وژن اور اسٹیج پر اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے لیکن 60ء کی دہائی سے 1982ء تک وقفے وقفے سے چلنے والی 'الن اور ننھا' کی سیریز لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو گئی۔ یہ وہ دن تھے جب ہمارے سماج کے سڑنے کا آغاز ہو رہا تھا۔ اکثر لوگوں کے سینے سے ضمیر کا پرندہ پرواز کر نے کے لیے پر تول چکا تھا، اس کے باوجود رشوت کی رقم سے کوٹھی تعمیر کرنے والوں کے دیدوں کے پانی نے ڈھل کر ابھی سیلابی ریلے کی صورت نہیں اختیار کی تھی جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا سب کچھ بہہ گیا۔
کمال احمد رضوی نے کتنے ہی ڈرامے لکھے، اسٹیج کیے، داد سمیٹی، ان پر ہُن برسا، انھوں نے فاقے کاٹے، لیکن جیسی ہنرمندی سے انھوں نے الن کا کردار تراشا وہ دیکھنے والوں کو بھول نہیں سکتا۔ یہ کردار انھوں نے روسی ادیب الیگزینڈر آستراوسکی کے ڈرامے 'ایک لفنگے کی ڈائری' سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ آستراوسکی نے تو اسے اپنے ایک ڈرامے میں لکھا لیکن کمال احمد رضوی نے اسے 100 رنگ سے باندھا۔ انھوں نے اس ڈرامے کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کے بارے میں لکھا ''ایک کردار جس نے کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا، وہ آسترا وسکی کے ڈرامے کا کردار تھا 'لفنگا'... اس کی آنکھوں میں مجھے کئی بار اپنا عکس بھی نظر آیا۔''
دھوکے باز اور نوسر باز الن کا کردار بظاہر ایسا ہے جس سے انسان نفرت کرے لیکن اس سے نفرت کیسے کی جائے کہ اس کے کردار میں ہماری اپنی خودغرضیاں اور ریاکاریاں جھلک دکھاتی ہیں۔
کسی سے بھی اس کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہنس دے گا اور یہی کہے گا کہ صاحب کیا ہنسنے ہنسانے والا ڈرامہ تھا لیکن سچ اس کے بارے میں آغا ناصر نے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں آغا ناصر، ساکن اسلام آباد، الف نون کا پہلا پروڈیوسر ہوں اور اس کی تخلیق و تہذیب میں بھی تھوڑا سا حصے وار ہوں، میں بقائمی ہوش و حواس حلفیہ بیان دینے کو تیار ہوں کہ الف اور نون مزاحیہ خاکوں کا نہیں، المیہ ڈراموں کا ایک سلسلہ ہے۔'
الف اور نون کا سلسلہ 60ء کی دہائی میں شروع ہوا اور وقفے وقفے سے 1982ء تک نشر ہوا، اس وقت ہم جب اسے دیکھتے تھے تو یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے سماج کی اس سے اچھی عکاسی بھلا اور کیا ہو گی۔ اس وقت ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ ضمیر اور ذہن کے زوال کی جس ڈھلان پر ہم نے سفر شروع کیا ہے یہ تو محض اس کا آغاز ہے، ہم اس ڈھلان پر نوری سال کی رفتار سے سفر کرینگے اور دنیا کی نگاہوں میں ایک تماشا بن جائینگے۔ انتظار حسین نے غلط تو نہیں لکھا تھا کہ 'مرزا سوداؔ کی ہجویات کی طرح الف نون بھی قوم کے اخلاقی زوال کا مرثیہ ہے۔'
بعد از مرگ کمال کی ایک کتاب شایع ہوئی ہے جسے 'کمال کی باتیں' کا نام دیا گیا ہے، یہ بیگم عشرت کمال رضوی اور ان کے 3 دوستوں ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ایس ایم شاہد، راشد اشرف کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
یہ کتاب کمال کے مختصر اور طویل شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جو ادیبوں اور فنکاروں کے ہیں اور جسے کمال نے بہت فن کاری سے لکھا ہے، اس میں فیض، منٹو، حمید کاشمیری، سبط حسن، شاکر علی، روشن علی بھیم جی، احمد پرویز اور شوکت حسین رضوی کے علاوہ بھی کئی لوگوں اور جگہوں کے خاکے ہیں۔ کمال کے لفظ ان لوگوں کو اور جگہوں کو زندہ کر دیتے ہیں۔
منٹو کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ایک دن منٹو صاحب انگلش وائن ہاؤس سے اپنا سودا خرید کر نکل رہے تھے تو اسی سڑک پر ایک جنازہ فین روڈ کی طرف مڑ رہا تھا۔ یہ سڑک لاہور ہائی کورٹ کے بغل میں تھی۔ منٹو صاحب دکان کے باہر رک گئے اور جنازہ گزرتے ہوئے دیکھتے رہے۔
جب جنازہ گزر چکا تو بولے: ''اب یہ سیدھا قبرستان پہنچ کر دم لے گا۔ اسی طرح میرا جنازہ بھی ہال روڈ سے مال روڈ پر آئے گا اور جب فین روڈ کی طرف مڑنے لگے اور تم اگر اس جنازے میں شامل ہو تو چپکے سے جنازے سے نکل کر یہاں اس دکان پر آنا اور ایک آدھی بوتل خرید کر باہر آنا اور مجھے یہیں سے کھڑے ہو کر رخصت کرنا۔''
اس وقت مجھے یہ خیال کچھ رومانٹک سا معلوم ہوا تھا لیکن جب میں ان کی وصیت کے مطابق جنازے سے چپکے سے نکل کر پہنچا تو دکان کا سارا عملہ باہر کھڑا تھا۔ انھیں خبر ہو گئی تھی کہ منٹو صاحب کا جنازہ گزر رہا ہے۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر بولے: ''اب کس کے لیے لینے آئے ہو؟''
''منٹو صاحب کے لیے ایک پوّا چاہیے۔ ان کو رخصت کرنے کے لیے۔''
''ان کی وصیت کے مطابق میں پوّا لے کر ان لوگوں کے ساتھ ہی اس وقت تک کھڑا رہا جب تک جنازہ کا آخری آدمی نظر سے اوجھل نہیں ہو گیا۔''
کمال کی یہ چند سطریں آنسوؤں سے نم ہو جاتی ہیں۔ خیال آتا ہے کہ 1955ء بھی ایک زمانہ تھا جب شراب کھلے عام ملتی تھی اور کم ظرف بہت کم تھے۔
اس کتاب میں جن لوگوں کے خاکے ہیں، وہ کسی ڈرائی کلین شاپ سے دھل کر نہیں نکلے، جیسے ہیں، ویسے ہی آپ کے سامنے پیش کر دیے گئے ہیں۔ ان ہی کی تحریر سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے آرٹسٹ احمد پرویز کب اور کہاں مشرف بہ اسلام ہوئے اور پینگوئن کے ترجمہ شدہ قرآن میں صراطِ مستقیم تلاش کرتے رہے۔
'کمال کی باتیں' میں دو خواتین کے خاکے ہیں۔ ایک 'ہماری انیس آپا' اور دوسرا 'ستارہ بائی کانپوری' کا ہے۔ ان خواتین میں بُعد المشرقین ہے۔ ایک کشادہ دل اور وسیع دسترخوان والی انیس آپا ہیں جن کے دروازے کمال احمد رضوی جیسے باصلاحیت لوگوں کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔
پتی ورتا انیس آپا نے ساری زندگی شوہر اور اس کے رشتہ داروں کی خدمت کی، حد تو یہ ہے کہ اپنی بینائی ان پر نثار کر دی اور اس کا صلہ انھیں یہ ملا کہ کسی دوسرے کی مدد سے وضو کرتیں، نماز پڑھتیں اور خدا کا شکر ادا کرتیں۔ یہ وہ خاتون تھیں جنھوں نے اپنا آبائی گھر فروخت ہونے کے بعد اس کے لاکھوں کروڑوں روپے بھی شوہر اور اس کے رشتہ داروں پر خرچ کر دیے اور جب نابینا ہوئیں تو وہی پتی اس سیتا ساوتری کو چھوڑ کر یوں گیا کہ پھر کبھی نہ آیا۔
دوسری خاتون ستارہ بائی کانپوری ہیں، کمال ستارہ بائی کے ایک گیت کے تعاقب میں 1944ء سے رہے اور 25 برس بعد جب لاہور میں ان کی ستارہ بائی سے ملاقات ہوئی تو اسے کیسے سیدھے سبھاؤ لکھا ہے کہ تحریر دل میں اتر جاتی ہے۔ زندگی کچھ لوگوں کو روندتی ہوئی گزر جاتی ہے، ستارہ بائی بھی ایسی ہی ایک نامراد گائیکہ تھی جس کی نگری آخر وقت تک برباد ہی رہی۔ ہم اسے کبھی نہ جانتے اگر کمال نے اتنی محبت سے اسے یاد نہ کیا ہوتا۔
اس کتاب میں کمال احمد رضوی کے لکھے ہوئے یہ خاکے اس بات کی گواہی ہیں کہ وہ انسانوں کے اندر اتر کر ان کی خوبیوں خامیوں، ان کی معصومیت اور کمینگی سب کا ایکسرے کرتے ہیں اور پھر رپورٹ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کمال کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو بھی دودھ سے دھلا نہیں دکھاتے۔
ان کے قلم سے ان کی اپنی وہ تصویر بنتی ہے جس میں وہ ہمیں شراب پیتے، عورتوں کو تاڑتے، دوستوں کی جیب ٹٹولتے، اپنے مصور دوستوں کی تصویریں اڑاتے، ٹیلر ماسٹر سے کسی اور کا سوٹ لے کر لاہور فرار ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو اپنی شادیوں اور طلاقوں کا ذکر دھڑلے سے کرتا ہے۔ عشرت اور ان کے درمیان عمروں کا تفاوت تھا لیکن عشرت نے ان کے بارے میں محبت سے لکھا اور ان کا ساتھ اس وقت تک دیا جب تک کمال کو غضب کی سردی نہیں لگی اور یہ سردی ان کا ہاتھ تھام کر آخری سفر پر نہیں لے گئی۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔