ویسٹ انڈیز سے جنون ہی سیکھ لیجیے

مینیجر اور کوچ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا آپ کی مینجمنٹ اور ٹیم کا حال ویسٹ انڈیز سے بھی گیا گزرا تھا؟


خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے اور اس قوم کے جذبات کی بجائے بلے اور گیند سے کھیلنے کی کوشش کیجیے۔

8 مارچ کو شروع ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016ء ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی کارلوس برتھ ویٹ کے جاندار چھکوں پر اختتام پذیر ہوا، یہی وہ چھکے تھے جس نے انگلستان کی یقینی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔

جیت کا سفر خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر منزل پر پہنچ کر جذبات کے سمندر کو قابو کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر انہی جذبات کی رو میں بہہ کر انسان دل سے بولتا ہے اور دنیا سنتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ویسٹ انڈیز کی جیت کے بعد دیکھنے کو ملا، ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ کا ذخیرہ رکھنے والے کیریبیئن کپتان ڈیرن سیمی فائنل جیتنے کے بعد بہت زیادہ جذباتی نظر آ رہے تھے، اُن سے جب پوچھا گیا کہ وہ اِس جیت اور 2012ء کی جیت کا کس طرح موازنہ کرتے ہیں تو اِنکا جواب بہت دلچسپ اور غیر متوقع تھا، سیمی نے کہا کہ،
''اُنہیں اپنے بورڈ نے ذلیل کیا اور وہ اپنے بورڈ سے انتہائی مایوس ہیں۔ پھر انہوں نے سابقہ کھلاڑی Mark Nicholas کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ، ایونٹ سے قبل وہ ہماری ٹیم کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ ٹیم دماغ سے فارغ ہے ٹیم ہے اور اِس کی جیت کا کوئی امکان نہیں۔ سیمی نے دوسری مرتبہ عالمی چیمپئن بننے والی ٹیم کے حوالے سے یہ کہا کہ بورڈ نے اُن کے ساتھ اِس قدر بُرا رویہ اپنایا کہ جب وہ دبئی پہنچے تو اُن کے پاس ایونٹ میں پہننے کے لیے یونیفارم تک نہیں تھے اور مشکل حالات میں یہ ذمہ داری ٹیم مینجر رال لیوس نے بھرپور طریقے سے ادا کی''۔



سیمی نے مزید کہا کہ،
''اُن کی ٹیم پر جتنی تنقید ہوتی گئی، اُن کی ٹیم اتنی ہی مضبوط ہوتی گئی، آج وہ صرف اپنے 15 کھلاڑیوں اور ٹیم اسٹاف کے ساتھ جشن منائیں گے۔ سیمی نے کہا وہ نہیں جانتے کہ اب اِس ٹیم اور ان کھلاڑیوں کے ساتھ اب کھیلیں گے کیونکہ ویسٹ انڈیز کے بورڈ نے پہلے بھی تنازعات کو چھیڑ کو ہمیں ٹیم سے باہر رکھا ہے اور اُنہیں مستقبل میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے''۔

یقیناً یہ باتیں آپ تمام ہی لوگوں کو معلوم ہوں گی اور آپ ویسٹ انڈیز کرکٹ کی حالت زار پر افسردہ ہوں گے، لیکن یہ باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کی ہمت اور جنون تمام تر مشکلات کے باوجود کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ بات سمجھ آگئی ہے تو آئیے اب کچھ بات پاکستان کرکٹ کی کر لیتے ہیں۔

پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست ہوئی، بلکہ بد ترین شکست ہوئی کہ بنگلہ دیش کے علاوہ کسی ٹیم سے میچ نہیں جیت سکے، اِس سے پہلے تو معاملات اور بھی خراب تھے کہ بنگلہ دیش سے بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس شکست کے بعد مختلف توجیہات اور وجوہات بیان کی جارہی ہیں۔ کوئی سیاست کی بات کررہا ہے تو کوئی وسائل کی کمی کا ذکر کررہا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ چونکہ پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند ہیں اس لیے نئے کھلاڑیوں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔



اس میں کوئی شک نہیں کہ 20 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں اگر کوئی چیز ہمیں اپنےاختلافات، عداوتیں اور دُکھ بُھلا کر یکجا کر دیتی ہے تو وہ یہ کرکٹ ہے، لیکن کرکٹ کے حوالے سے اس قدر اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود ہماری قومی ٹیم اپنے ہمسایہ ملک کے برعکس بالکل بھی جنونی نہیں بلکہ کھیل کو کھیل سمجھتی ہے اور شکست پر بھی بخوشی سر تسلیم خم کرتی ہے۔

پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ اور بھی دوسرے کھیل ہیں، مگر جو مقام کرکٹ کو حاصل ہے وہ ہاکی کو بھی حاصل نہ ہوسکا حالانکہ وہ پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ دنیا میں کھیل کے چند بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس سے کم و بیش ایک ہزار لوگ کسی نہ کسی حوالے سے منسلک ہیں جن کا کام قوم کے پسندیدہ کھیل کو ترقی دینا اور ہماری ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیم بنانا ہے، مگر جو نتیجہ پچھلے کچھ عرصے سے ہمیں دیکھنے کا شرف حاصل ہورہا وہ انتہائی مایوس کن ہے۔

پچھلے دنوں کی بات ہے ہماری ہاکی ٹیم کے بیرون ملک دورے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں تھے، خستہ حالی کا شکار صرف ہاکی ہی نہیں بلکہ کشتی، دوڑ، تیراکی، بیڈمنٹن اور دوسرے کھیلوں کا جائزہ لیا جائے تو کھلاڑیوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن چونکہ ساری توجہ کرکٹ پر مرکوز ہے اس لیے پورا ملک میچ شروع ہوتے ہی اپنی ٹیم کی حمایت کی غرض سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور اُس وقت تک یہ کام کرتا ہے جب کہ میچ کا نتیجہ نہ آئے، پھر بغیر کسی غرض کے اس تمام تر حمایت کے بعد جب ٹیم مایوس کرے تو کہا جاتا ہے کہ قوم کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ ارے بھائی کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ یہ کھیل، یہ ٹیم اور اس کے کھلاڑی اسی قوم کے مرہون منت ہیں، اگر ٹیم اور کھلاڑیوں کی حمایت ختم ہوجائے تو پھر لگ پتا جائے کہ وہ خود کچھ بھی کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔



ویسے تو ہر شکست کے بعد ایک جیسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے، لیکن چونکہ پرانی باتیں شاید یاد نہ ہوں اس لیے ہم زیادہ دور نہیں جاتے بلکہ ورلڈ کپ 2011 سے آغاز کرتے ہیں۔ آپ کو ان گنت مواقع ایسے ملیں گے جہاں یہ خبر آئی کہ کھلاڑیوں میں اختلاف ہے، کوچ کی بات نہیں سنی جاتی، ٹیم میں ڈسپلن نہیں ہے، کپتان اور کوچ کی بنتی نہیں، بورڈ میں سیاست بہت ہے، بورڈ میں سفارش بہت چلتی ہے، جس کے پاس پیسہ اور تگڑی سفارش ہے وہ ٹیم میں کھیلے گا، ٹیم کی سلیکشن ٹھیک نہیں کی گئی، اس کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ بنتی ہی نہیں، کپتان کی بات نہیں مانی جاتی ہے، کوچ غیر ملکی ہونا چاہیئے وغیرہ وغیرہ۔

یہ ساری وہ باتیں ہیں جو ریکارڈ کا حصّہ ہیں اور جھٹلائی نہیں جا سکتیں۔ اگر آپ کو اب بھی ہماری بات کا یقین نہیں تو موجودہ ورلڈ کپ کے بعد جو کچھ تماشہ ہم صبح شام دیکھ رہے ہیں اُس کو دیکھ کر یقیناً ہماری بات کا اندازہ ہوجائے گا۔ کوچ وقار یونس بورڈ کو رپورٹ دیتے ہیں تو وہ شام کو ہی افشا کروا دی جاتی ہے، کپتان شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں بلکہ صرف عوام کو جوابدہ ہیں اس لیے گھر بیٹھ کر معافی کی ویڈیو بنائی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ڈال دی۔ پھر کھلاڑیوں پر پابندی کی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں، لیکن سمجھ نہیں آتا ہے کہ بورڈ میں بیٹھے اُن افراد کے خلاف کارروائی کب ہوگی جو کوچ، کپتان، کھلاڑیوں کو منتخب کرتے ہیں۔ وہ تو ہر دور میں بورڈ کا حصہ ہوتے ہیں اور کھلاڑیوں کو قربانی کا بکرا بناکر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب معاملہ حل ہوگیا۔ 2003ء سے یہ کھیل چل رہا ہے لیکن مجال ہے کہ کچھ بہتری بھی نظر آئی ہو۔



انتخاب عالم جو 1992ء کے بعد سے کسی نہ کسی عہدے کے ساتھ بورڈ کا حصہ ہیں وہ شکست کے بعد اچانک گویا ہوئے کہ شاہد آفریدی میں قائدانہ صلاحیتوں کی کمی ہے، دوران ورلڈ کپ ان کا رویہ ہرگز ایسا نہیں تھا جو ایک کپتان کا ہونا چاہیے تھا، صرف یہی نہیں بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آفریدی فوری طور پر عہدے سے ہٹا دینا چاہیے۔ لیکن موصوف نے اپنے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ اُن کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ یہ وہی انتخاب عالم ہیں جنہوں نے اپنی گزشتہ رپورٹ میں آفریدی کو کپتان بنانے کی تجویز دی تھی۔ ہمارے یہ بزرگ 35 سال سے تو ٹیم کے ساتھ ہیں اور اگر زندگی نے ساتھ دیا تو آنے والے 35 سال بھی کرکٹ کی ''خدمت'' میں صرف کریں گے۔

دوسری جانب وقار یونس کی بات کریں تو موصوف دوسری بار کوچنگ کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے، اور جب بدترین شکست کا سامنا ہوا تو اچانک اُن کو بورڈ کے اندر موجود خرابی نظر آگئی، میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ٹیم ٹائٹل جیت جاتی تو پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کا شمار بہترین بورڈ اور کھلاڑیوں میں ہورہا ہوتا۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ہار کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہو یا کچھ کھلاڑیوں کو قربانی کا بکرا بنا کر عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی ہو، بلکہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کرنے کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور خدشہ ہے کہ اسی تسلسل سے جاری رہے گا۔

ہمارا بورڈ منفرد صلاحیتوں کا حامل ہے، جہاں چیئرمین کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کی پوسٹ بنائی جاتی ہے اور پھر حکومتی منظورِ نظر شخصیت جناب نجم سیٹھی کو اس کا سربراہ بنادیا جاتا، اور جو کام چئیرمین کے ذمہ تھے وہ ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کا سربراہ سرانجام دیتا ہے۔ چلیں یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر جب ٹیم بُری طرح ہار کر گھر لوٹتی ہے تو ذمہ داری ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کے بجائے چئیرمین پر ڈال دی جاتی ہے کیونکہ ایگزیکٹو بورڈ کا سربراہ تو حکومت کو پیارا ہے۔

یہ تمام باتیں کرنے کے بعد مینجمنٹ اور دوسرے معاملات کو ہار کی وجہ قرار دینے والے مینیجر اور کوچ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا آپ کی مینجمنٹ اور آپ کی ٹیم کا حال ویسٹ انڈیز سے بھی گیا گزرا تھا؟ کیا جذبے کی کوئی قیمت ہوتی ہے؟ کیا کسی کو اس ملک اور گرین شرٹس سے پیار کرنے والوں کا احساس نہیں؟ خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے اور اس قوم کے جذبات کی بجائے بلے اور گیند سے کھیلنے کی کوشش کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پیار اور جذبے کو آپ ترس جائیں۔

[poll id="1048"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں