سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں دوسری قسط

ملائیشیا ہے تو اسلامی ملک لیکن یہاں کرسمس کا تہوار مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔


مہاتیر محمد نے جب اصلاحات کا کام شروع کیا تھا تو ملائیشیا کے تمام دفاتر کو یکجا کرنے کے لئے اس علاقے کو آباد کیا تھا، جس کا نام پتراجایا رکھا گیا ہے۔

ملائیشیا کا نیا دالحکومت ۔ پترا جایا

ہم فوڈ کورٹ میں کھانے کا انتظار کررہے تھے۔ فوڈ کورٹ میں ہم جس جگہ بیٹھے تھے وہ ایکسیلیٹر کے بالکل ساتھ تھی۔ ایکسیلیٹر پر لوگ اِس بُری طرح لدے ہوئے چل رہے جیسے اس کے بعد یہ ایکسیلیٹر بند ہونے والے ہوں۔ ہم نے دبئی کے مال میں بھی رش دیکھا تھا لیکن وہاں کے رش کو اب یہاں کے رش کے مقابلے میں رش نہیں کہہ سکتے تھے۔

کھانا چاولوں کی ڈش کے ساتھ ان کے اپنے ذائقوں میں پکے ہوئے مرغ کی مختلف اقسام کے ساتھ تھا۔ اگرچہ ہمیں ڈاکٹر نے شوگر کی وجہ سے چاول بند کئے ہوئے تھے لیکن ہم نے بھی بدپرہیزی کی انتہا کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چاولوں کی ڈش کے ساتھ اسپرائیٹ بھی منگوالی حالانکہ وہ بھی منع ہے۔ اسپرائیٹ اور پیپسی کی جگہ پر ملائیشیا کی کسی کمپنی کا مقامی برانڈ پینے کو ملا۔ آپ کسی بھی مال کی فوڈ اسٹریٹ میں چلے جائیں آپ کو لوکل برانڈ کے مشروبات ہی ملیں گے۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے گئے یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ یہاں روٹی دستیاب نہ تھی، اس لیے بچوں نے بھی ہمیں چاول کے استعمال سے روکا نہیں، اگر پاکستان میں یہ بدپرہیزی کی گئی ہوتی بچے خوب بولتے اور ٹوکتے۔ ویسے تو بدپرہیزی شوق سے زیادہ مجبوری تھی کیونکہ یا تو وہاں روسٹڈ مرغ تھا یا چاولوں کے ساتھ والی ڈش۔ چونکہ مجھے وہاں کا روسٹ پسند نہیں آرہا تھا کیونکہ وہاں کے روسٹ میں مرغ کی کھال بھی شامل ہوتی ہے۔ ہم یہاں لاہور بروسٹ جیسے اداروں کا روسٹ اس لئے کھا لیتے ہیں کیونکہ اس پر کھال نہیں ہوتی۔



سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

خیر ہم بھی ناجانے کیوں بال کی کھال کی مانند مرغ کی کھال کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ پاکستان میں تو اپنی کھال بچانا مشکل ہوگیا ہے، سمجھ نہیں آتا اس قدر مہنگائی کے دور میں کیا کریں، لیکن مہاتیر محمد کی اصلاحات کے نتیجے میں وہاں غربت دور ہوچکی تھی۔ یہاں حکومت نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ ایک بھی غریب نہیں رہنے دیں گے کیونکہ اس ملک کے ہر سفید پوش کو ننگا کرنے اور انہیں بھی ٖغربت کا مزا چکھانے کی قسم کھائی ہے ہمارے ہی تراشے ہوئے بتوں نے۔ خیر ابھی تو ہم کچھ دن ان سوچوں سے آزاد تھے اس لئے ذہن کو صرف سیر و تفریح پر مرکوز کیا ہوا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر ہم نے ٹاور کی کچھ اور منزلیں دیکھیں۔ اسکائی برج سے کوالا لمپور کے دلکش نظارے کئے اور پھر نیچے اترنے کے بعد ٹاور سے منسلک پارک میں آگئے۔

ملائیشیا ہے تو اسلامی ملک لیکن یہاں کرسمس کا تہوار مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اندر بھی کرسمس ٹری بنے ہوئے تھے لیکن پارک کی جانب ایک وسیع و عریض کرسمس ٹری بنا ہوا تھا۔ یہ ٹری ایسی جگہ بنایا گیا تھا کہ اگر پیٹرونس جڑواں ٹاوروں کو پس منظر میں رکھ کر تصویر بنائی جاتی تو یہ درخت لازمی طور پر تصویر کا حصہ بن جاتا۔ ایک اسلامی ملک میں کرسمس مناتے دیکھ کر دل مں ایک خواہش ابھری کہ کاش ہم بھی اپنے عید کے تہوار کو اتنے ہی اہتمام سے ثقافتی انداز میں مناسکتے۔ عید کی مذہبی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اگر اسے ثقافتی انداز بھی دے دیا جائے تو اسلام کا ایک ماڈرن تصور بھی ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔

ہم نے اس کے بعد تھوڑی دور واقع کوالا لمپور ٹاور بھی دیکھا جسے عرفِ عام میں کے 'کے ایل ٹاور' کہتے ہیں، لیکن اندر داخل نہیں ہوئے۔ کے ایل ٹاور بھی ملائیشیا کی اہم تریں تنصیبات میں سے ایک ہے اور بلند عمارتوں میں شامل ہے۔ پہلے یہ دنیا کی بلند ترین عمارتوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر شمار کی جاتی تھی لیکن دنیا میں بلند عمارتوں کی تعداد میں مسلسل اضافے نے اسے بھی نمبرز گیم میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔

ہم صبح سے نکلے ہوئے تھے۔ دوپہر کا کھانا ہم نے مال میں کھا لیا تھا لیکن کچھ تھکن سی محسوس ہورہی تھی، چونکہ بچے جوان تھے اس لئے آگے سے آگے چلے جارہے تھے۔ کے ایل ٹاور دیکھنے کے بعد بچے بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تھک گئے ہیں۔ عدیل بیٹا کہنے لگا کہ اب ہوٹل چلتے ہیں تھوڑا آرام کرنے کے بعد پتراجایا دیکھنے چلیں گے۔ پتراجایا اصل میں ایئرپورٹ اور کوالا لمپور شہر کے درمیان ایک نئی آبادی ہے۔ جب ہم ایئرپورٹ سے آرہے تھے تو ٹیکسی ڈرائیور نے اس کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ نئی آبادی ہے اس لئے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہوٹل آکر ہم نے اس جگہ کے بارے میں مزید تحقیق کی تاکہ جب وہاں جائیں تو بہتر طریقے سے وہاں کے بارے میں جان سکیں۔

مہاتیر محمد نے جب اصلاحات کا کام شروع کیا تھا تو ملائیشیا کے تمام دفاتر کو یکجا کرنے کے لئے اس علاقے کو آباد کیا تھا۔ تمام دفاتر کو یکجا کرنے کا مقصد ایک جانب کارکردگی میں اضافہ کرنا تھا تو دوسری جانب اصلاحات کے کام کو تیز تر کرنے اور سرمایہ کاروں کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے سہولت بہم پہنچانا تھا۔ مہاتیر محمد نے ملائیشیا پر 25 سال کے لگ بھگ حکمرانی کی اور ملائیشیا کی بنیاد کو مضبوط پلاننگ سے مستحکم کیا ہے۔ پاکستان میں اداروں کو نجی سیکٹر کے حوالے کرنے کا مقصد ایک تو کچھ کئے بغیر رقوم کا حصول ہے، دوسرا آئی ایم ایف ہمارے مائی باپ ایسا کرنے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ ان کے قرضہ دینے کی شرائط میں یہ سب کچھ شامل ہے۔ ادارے فروخت کرکے جو کچھ حاصل ہوگا وہ آئی ایم ایف کے سود کی قسط میں چلا جائے گا اور اتنے میں پانچ سال مکمل ہوجائیں گے۔ پھر نئی حکومت آکر کہے گی کہ خزانہ خالی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مہاتیر محمد نے آئی ایم ایف کو دور سے ہی سلام کہہ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مہاتیر محمد کے اس مقصد کے لئے بسائے ہوئے علاقے کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا۔

بس ابھی گھنٹہ بھر کمرے میں آرام کیا اور عدیل ہمارے کمرے میں آگیا کہ شام کی چائے پی لی جائے تاکہ جایاپترا کے لیے روانہ ہوا جاسکے۔ چونکہ ٹی بیگ اور دودھ ہم ساتھ لے کر گئے تھے اِس لئے چائے کے حصول کے لیے نہ تو کہیں جانا پڑا اور نہ ہی کسی کو آرڈر دینا پڑا۔ ابھی ہم نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ زور سے بجلی کڑکی، ہم نے پردہ ہٹا کر دیکھا تو کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ بارش شروع ہونے کی وجہ سے ہم نے باہر نکلنے کے پروگرام کو کچھ دیر کے لیے موخر کردیا۔ اگرچہ ہم بارش میں نکل تو سکتے تھے لیکن ننھی سی پوتی عنایا ہمارے ساتھ تھی۔ اسے اگرچہ پانی میں جانے کا بہت شوق تھا لیکن اگر وہ زکام پکڑ لیتی تو سارا ٹور غارت ہوجاتا۔ بس اس لئے کچھ دیر ہم کمرے کی دیوار سائز کھڑکی سے بارش کا نظارہ کرتے رہے۔ بادلوں کی گرج چمک سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ رکنے والی نہیں اس لئے ہم نے اپنے ہوٹل کے مال کا نظارہ کرنے کی ٹھانی۔ جب ہم ان منزلوں پر پہنچے جنہیں مال کا نام دیا گیا تھا تو ہم حیران رہ گئے کیونکہ پاکستان کا بڑے سے بڑا اسٹور بھی اس کے مقابلے میں ننھا منا سا محسوس ہوا۔ لاہور میں ہم میٹرو وغیرہ بھی گئے ہیں لیکن اس اسٹور کے مقابلے میں وہ بونے سے لگے۔ وہاں سے کچھ چیزیں خرید کر جب ہم کمرے میں واپس آئے تو رات کے تقریباََ نو بج چکے تھے اور اِس وقت تک باہر مطلع صاف ہوچکا تھا لیکن اب اتنا وقت نہیں تھا کہ ہم جایاپترا جاسکتے کیونکہ ملائیشیا میں سب کچھ 10 بجے بند ہوجاتا ہے۔ ہم جانے کب وقت کی پابندی سیکھیں گے؟نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |