پانامہ لیکس وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹس
پانامہ لیکس کے ایشو نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کر رکھا ہے
پانامہ لیکس کے ایشو پر گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت سامنے آئی' عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پانامہ لیکس کے معاملے پر تحریک انصاف' جماعت اسلامی' عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر درخواست گزاروں کی درخواست پر سماعت کی۔ان درخواستوں میں پانامہ لیکس ایشو پر وزیراعظم کی نا اہلی کی استدعا کی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ میں پانامہ پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ پانامہ رپورٹس کے آغاز سے ہی اور اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے سے پہلے میں نے سپریم کورٹ کے معزز ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا اعلان اسی جذبے کے ساتھ کیا تھا کہ شفاف تحقیق کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے آجائیں۔
اس کے جواب میں واحد مطالبہ یہ سامنے آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں حاضر سروس جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔ میں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ٹی او آرز کا تنازعہ شروع کر کے سپریم کورٹ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کی روشنی میں حکومت نے متفقہ ٹی او آرز کی تیاری کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی۔
کمیٹی کے ارکان کی تعداد کا تعین کرتے ہوئے پارلیمان میں حکومت کی واضح عددی برتری کے باوجود اپوزیشن کو برابر نمایندگی دی گئی لیکن ہماری ان تمام تر کوششوں کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ اسی دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے خط کی روشنی میں 1956 کے کورٹ آف انکوائری ایکٹ کو تبدیل کرنے اور کمیشن کو مزید موثر اور طاقتور بنانے کے لیے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا لیکن مسلسل منفی رویہ جاری رکھتے ہوئے مسلمہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے برعکس ایک متوازی بل پیش کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر دو بار قوم سے خطاب کرنے کے علاوہ میں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی اپنا تفصیلی موقف پیش کیا لیکن دوسری جانب سے حکومت کی نیک نیتی پر مبنی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے اس کی شفاف اور بے لاگ تحقیقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔انھوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے میں آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔
پانامہ لیکس کے ایشو نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کر رکھا ہے' تحریک انصاف 2نومبر کو اسلام آباد میں جو دھرنا دے رہی ہے' اس کی تہہ میں بھی درحقیقت پانامہ لیکس کا ایشو ہی کارفرما ہے' بلاشبہ اپنے ردعمل میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مثبت اپروچ کا مظاہرہ کیا ہے اور سپریم کورٹ کی کارروائی کا خیرمقدم کرنے کا اعلان کیا ہے' پانامہ لیکس کا ایشو اب چونکہ عدالت کے پاس ہے اور کارروائی کا کسی حد تک آغاز بھی ہو چکا ہے لہٰذا اس کے آئینی و قانونی پہلو پر بات کیے بغیر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد نبٹایا جانا چاہیے۔
اصولی طور پر اس معاملے کو عدالتوں کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہیے تھا' بہر حال اگر حکومت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کوئی اقدام اٹھایا بھی تو اسے اپوزیشن نے تسلیم نہیں کیا اور یہ معاملہ سیاست میں آ گیا ہے۔ وزیراعظم نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جس کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا' اسے اپوزیشن نے تسلیم نہیں کیا' پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی آر اوز کے معاملے پر مذاکرات شروع ہوئے اور وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
یوں یہ معاملہ تحریک انصاف نے سیاست کے میدان میں اٹھایا' اس ایشو پر جلسے اور جلوس ہوئے اور اب 2نومبر کو تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اصولی طور پر اگر اس معاملے پر عدالتی کارروائی پہلے شروع ہو جاتی تو سیاست میں اتنی تلخ اور گرما گرمی پیدا نہ ہوتی' بہر حال اب عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر نوٹس جاری کر دیے ہیں اور اب اگلی سماعت پر اس کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو گا' اب سب فریقین کو چاہیے کہ وہ عدالت میں اپنے موقف کے حق میں مضبوط دلائل تیار کریں ۔ یہ آئینی و قانونی معاملہ ہے اور اسے آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق ہی طے کیا جانا چاہیے۔