پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان تصادم

تحریک انصاف کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے یوتھ کنونشن پر پولیس اور ایف سی نے جمعرات کو دھاوا بول دیا


Editorial October 28, 2016

2 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں دھرنے کے حوالے سے گزشتہ روز صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا ہو گئی اور سیاست نے نیا رخ اختیار کر لیا۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے یوتھ کنونشن پر پولیس اور ایف سی نے جمعرات کو دھاوا بول دیا اور یہ کنونشن نہیں ہونے دیا' پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مزاحمت کی جس پر پولیس نے ان پر شدید لاٹھی چارج کیا اور 50 کے لگ بھگ کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا،کئی کارکن لاٹھیوں سے زخمی بھی ہوئے، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گرفتار افراد کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری رات گئے بنی گالہ پہنچ گئی اور عمران خان کی رہائشگاہ کا محاصرہ کر لیا،یہاں پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی موجود ہیں۔ شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی کو بھی سیل کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس کا موقف یہ ہے کہ ضلع میں دفعہ 144 نافذ ہے مگر تحریک انصاف نے یوتھ کنونشن کے لیے ضلعی انتظامیہ سے این او سی نہیں لیا جس پر منتظمین کو روکا گیا تو انھوں نے پولیس کے ساتھ مزاحمت شروع کر دی جس پر 50 افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گرفتار کیے گئے کارکنوں کی تعداد 120 سے زائد ہے، جمعہ کو بھی متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ہم انھی سطور میں مشورہ دیتے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کو سیاسی حدت میں اتنا اضافہ نہیں کرنا چاہیے کہ نوبت تصادم یا گھیراؤ جلاؤ تک پہنچ جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور جمعرات کو وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا' اسلام آباد میں ہونے والی اس ہنگامہ آرائی کے بعد تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے جمعہ کو ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کر دیا۔ جمعہ کو راولپنڈی میں سارا دن تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں' یہاں جلسے کا انعقاد ہونا تھا لیکن حکومت نے یہ جلسہ بھی نہیں ہونے دیا۔

حکومت نے شیخ رشید کی رہائش گاہ لال حویلی اور عمران خان کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر رکھا تھا اور کسی کو باہر آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود شیخ رشید پولیس کو چکمہ دے کر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر بچتے بچاتے راولپنڈی کے معروف کمیٹی چوک پہنچ گئے اور وہاں موجود کارکنوں سے خطاب کر کے چلے گئے' عمران خان بھی اپنی رہائش گاہ کے باہر آئے اور صحافیوں سے گفتگو کی۔ اس کے بعد بنی گالا میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

پولیس نے معروف گلوکار سلمان احمد کو بھی گرفتار کیا'وہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے پولیو مہم کے حوالے سے سفیر ہیں۔ان کے بقول وہ پولیس کی گاڑی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ جو اسلام آباد اور راولپنڈی میں جمعرات اور جمعہ کو دیکھا گیااور میڈیا میں سارا دن دکھایا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر پولیس تشدد کی مذمت کی ہے ۔

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ پر ملک کے فہمیدہ حلقوں کو بجا طور پر تشویش ہے' جمہوریت اور آئین کے اصولوں اور ضوابط کے تحت پُرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ سیاستدانوں کے اشتعال انگیز بیانات نے صورتحال کو کشیدہ کیا۔ اگر فریقین اپنی تقریروں میں احتیاط کا مظاہرہ کرتے اور الفاظ کا سوچ سمجھ کر استعمال کرتے تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔

بہر حال بیشتر مبصرین کی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد غلط فیصلہ ہے، حکومت کے مشیر غلط مشورے دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کا پی ٹی آئی پر دھاوا دراصل احتجاج کامیاب بنانے کی کارروائی ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ 2 نومبر اور اس کے بعد جو صورت حال ابھرے گی وہ حکومت کے لیے کڑا امتحان ہو گی کیونکہ ایک طرف پانامہ لیکس کی درخواست زیرسماعت ہے اور دوسری طرف کنٹرول لائن پر بھارت کی آئے روز کی فائرنگ اور گولہ باری ہے جس کا نشانہ معصوم شہری بن رہے ہیں اور ان کے مکانات تباہ ہو رہے ہیں جس سے حکومت سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان میں داخلی طور پر سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔لیکن پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔

سیاسی بصیرت کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر پولیس ایکشن نہیں کیا جانا چاہیے تھا' اطلاعات کے مطابق انھوں نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کا پلان نہیں بنایا تھا' اگر پولیس اور ایف سی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن نہ بھی کرتی تو کسی قسم کی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہوتی۔

یوتھ کنونشن میں تقاریر ہوتیں اور اس کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے' حکومت بھی یہ کہتی کہ دیکھیں پرامن کنونشن ہونے دیا گیا ہے لہٰذا 2نومبر کو بھی پرامن جلوس اور دھرنا ہو جائے تو کچھ نہیں کہاجائے گا۔یہ دھرنا بھی ہو جاتا اور معاملات یونہی چلتے رہنے تھے لیکن حکومت کے پالیسی سازوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے سختی کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے دو روز راولپنڈی اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہوتے رہے۔

بلاشبہ اسلام آباد انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 لگا رکھی ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں کسی احتجاج' جلسہ یا ریلی کا اعلان کرتی ہیں تو محض انھیں روکنے کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ جیسے اقدامات کبھی کارگر ثابت نہیں ہوئے بلکہ اس سے مسائل کو زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کارکن ایسے اقدامات کے خلاف زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اور دفعہ 144 کو توڑ کر احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز راولپنڈی اور اسلام آباد میں یہی کچھ ہوا' دفعہ 144 کے باوجود کارکن احتجاج کرتے رہے اور پولیس کی شیلنگ ہوتی رہی۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ پولیس تشدد اور آنسو گیس کا استعمال عوام کو مزید مشتعل کرنے کا باعث بنتے ہیں' جیسے جیسے تشدد بڑھتا ہے کارکنوں میں اشتعال زیادہ پیدا ہوتا ہے اور انھیں عوام میں ہمدردیاں بھی زیادہ ملتی ہیں۔ 1977ء کی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اس کے بعد بھی جو تحریکیں چلیں ان میں یہی کچھ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کو بھی اگر دانشمندی سے ہینڈل کیا جاتا تو اس پر باآسانی قابو پایا جا سکتاتھا۔ مگر پرویز مشرف انتظامیہ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔

ایک جمہوری حکومت کے دور میں سیاسی کارکنوں پر تشدد ہونا' آنسو گیس کا استعمال کرنا' سیاسی لیڈروں کو نظربند کرنا اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بھیجنا' اس کی اخلاقی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے' لہٰذا جمہوری حکومتیں ایسے اقدامات سے ہمیشہ گریز کرتی ہیں اور اپوزیشن کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں تا کہ وجہ احتجاج کو ختم کیا جائے۔

موجودہ حکومت نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ایک برس پہلے کے دھرنے کو بڑے صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا' پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے حق میں اہم کردار ادا کیا' اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طویل دھرنے کے باوجود کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہوا' پھر مذاکرات بھی ہوتے رہے اور بالآخر حکومت اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا' ابھی 2 نومبر میں خاصے دن باقی ہیں لیکن تصادم پہلے ہی شروع ہو گیا ہے۔

اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم بھی آیا جس میں ہدایت کی گئی کہ اسلام آباد کو بند نہ ہونے دیا جائے اور حکومت کو ہدایت کی کہ شہر کو کھلا رکھا جائے اور کنٹینر ہٹائے جائیں مگر کیا ہوا' راولپنڈی' اسلام آباد میں تصادم ہوا اور کنٹینرز بھی لگائے گئے' دفعہ 144 کی خلاف ورزی بھی کی گئی' ایسا کیوں ہوا' غلطی کس کی تھی' اس پر کسی ایک کو نہیں سب کو سوچنا چاہیے' جمعرات اور جمعہ کی ہنگامہ آرائی کے اثرات اسٹاک مارکیٹ پر پڑے اور شیئرز کی قیمتیں گر گئیں۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اپنا کرغزستان کا دورہ منسوخ کرنا پڑا' ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورت حال کشیدہ رہی' یہ صورت حال ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔اس سارے معاملے میں زیادہ سوچنے کا کام حکومت کا ہے۔ ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ جمعرات اور جمعہ کو جو کچھ ہوا ' اس کا اسے سیاسی لحاظ سے فائدہ ہوا یا نقصان ہوا۔ یہ بات طے ہے کہ سیاسی کارکنوں پر تشدد اور آنسو گیس کے استعمال کی کوئی بھی سیاسی جماعت حمایت نہیں کر سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کی جمہوری سیاسی قیادت نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا نہیں ہے اور نہ ہی ملک کے فہمیدہ حلقوں نے اسے صائب جانا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ صورت حال پر اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صورت حال خاصی گمبھیر ہے۔ اصل معاملہ وہی ہے کہ حکومت کو چاہیے یہ تھا کہ وہ ان بنیادوں پر ختم کرنے کے اقدامات کرتی جن کی بنیاد پر تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کو کھڑا کر رکھا ہے۔

پانامہ لیکس کے ایشو کو حل کیا جانا چاہیے۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ضرور دیکھنے والی بات ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے تحفظات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ انتخابات میں دھاندلیوں کا معاملہ تھا ' اس پر بھی قبل از وقت کچھ نہ کیا جس کا نتیجہ اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں نکلا' اور سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا۔ اس وقت صورت حال خاصی گمبھیر ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس سے نکلا نہیں جا سکتا۔ اس معاملے میں اب بھی جمہوری روایات پر عمل کیا جانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کی قیادت 2نومبر کو دھرنا دینے پر بضد ہے 'حکومت اسے بزور قوت روکنے پر تلی ہوئی ہے'2نومبر کو یا اس سے پہلے کوئی سانحہ رونما ہو گیا تو اس سے حکومت کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور سسٹم بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔حالات کا تقاضا یہ ہے کہ کشیدگی کی صورت حال کو ڈیفیوژ کیا جائے۔اس معاملے میں ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تو محاذ آرائی کا شکار ہیں لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو کسی کا ساتھ دینے یا خاموش تماشائی بننے کے بجائے مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور گفت و شنید کا راستہ کھولنا چاہیے۔جمہوری نظام کو ہر صورت میں بچایا جانا چاہیے۔تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گھیراؤ جلاؤ زیادہ بڑھا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں