

لاہور کے مقامی ہوٹل میں كونسل آف پاكستان نیوزپیپرزایڈیٹرز (سی پی این ای) كے پروگرام ''میٹ دی ایڈیٹر'' میں گفتگو کرتے ہوئے چیرمین نیب قمر زمان چوہدری نے كہا كہ نیب ایك خود مختار ادارہ ہے، ہماری كسی سے دوستی یا دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی ہم پر كسی قسم كا كوئی دباؤ ہے، سیاستدانوں كے خلاف بلا امتیاز كاروائی كی جارہی ہے تاہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار كا كیس ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج تك 285 ارب روپے قومی خزانے میں جمع كروائے ہیں اور عوام كی لوٹی ہوئی دولت انہیں واپس لوٹائی ہے، پلی بارگین مروجہ قانون كے مطابق ہے اور دنیا كے بیشتر ترقی یافتہ ممالك میں یہ قانون روبہ عمل ہے، پاكستان میں گزشتہ 16 سال سے اس پر عمل كیا جارہا ہے، پلی بارگین كے ضمن میں یہ دیكھنا ہوگا كہ اس كے فوائد كتنے ہیں اور نقصانات كتنے ہیں، یہ درست ہے كہ نیب میں كچھ كمزوریاں اور كوتاہیاں بھی ہوں گی اور بہتری كی بھی گنجائش ہوگی لیكن اس كے ساتھ ساتھ متعلقہ وفاقی اداروں كو بھی مزید كام كرنی كی ضرورت ہے۔

چیرمین نیب نے بتایا کہ اس وقت میگا كرپشن كے 179 كیسز نیب میں درج ہیں جن پر مرحلہ وار عمل ہورہا ہے، ان میں سے اب تك 70 فیصد سے زائد فارغ كردیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملك میں ہونے والے جرائم كے حجم كے حوالے سے ہمارے پاس كوئی سائنسی اعداد وشمار نہیں ہیں اس لیے كرپشن كے حوالے سے كوئی مصدقہ اعداد وشمار نہیں بتائے جاسكتے۔
قمرزمان چوہدری نے کہا کہ اگر حكمران حلقے یا اپوزیشن ہم سے خائف ہے تو اس كامطلب یہ ہے كہ ہم بہتر كام كررہے ہیں تاہم بہتری كی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ انہوں نے كہا كہ نیب كے قیام سے لے كر اب تك اس پر تنقید بھی كی گئی اور تحسین بھی، تنقید كی زیادہ تر وجہ مِس فیڈنگ اور مِس گائڈنس ہوسكتی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پلی بارگین معافی نہیں بلکہ تحقیقات آگے بڑھانے کا ہتھیار ہے

كوئٹہ میں سیكرٹری خزانہ كیس كا حوالہ دیتے ہوئے چیرمین نیب کا کہنا تھا کہ اس میں اصل رقم 2.2 ارب روپے تھی لیكن میڈیا میں 40 ارب روپے كا نقصان ظاہر كردیا جس كی وجہ سے ایك نئی بحث چھڑ گئی۔ انہوں نے سی پی این سی سے استدعا كی كہ وہ اس قسم كی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ كا نوٹس لیتے ہوئے اس كی تحقیقات كریں اور اپنے طورپر ایك انكوائری كمیٹی تشكیل دیں اور ذمہ داری كا تعین كریں تا كہ اس قسم كی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ كا اعادہ نہ ہوسكے ۔

ایك سوال كے جواب میں چیرمین نیب نے كہا كہ مشتاق رئیسانی كیس میں 3.3 بلین روپے كی ریكوری كی جاچكی ہے جو بلوچستان حكومت كودی جائے گی اس كے باوجود كیس ابھی ختم نہیں ہوا، خالد كانگو كا كیس عدالت میں ہے، اسی طرح كامران كیانی اسكینڈل پر بھی كارروائی ہورہی ہے ، پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں كے كرپشن میں ملوث عہدیداروں كے خلاف كارروائی كی جارہی ہے۔ انہوں نے كہا كہ وائٹ كالر كرائم پر دو جمع دو نہیں ہوتے بہت سی چیزوں كو دیكھنا پڑتا ہے، ڈبل شاہ كیس میں بھی 4 ارب روپے كی رقم لوگوں تك پہنچائی گئی جب كہ باقی 3 ارب روپے كے ریكوری كے لیے كیس عدالت میں چلا گیا۔

قمر زمان چوہدری کا کہنا تھا کہ 90 فیصد كیس شكایات كی بنیاد پر ہوتے ہیں، سوموٹو كا اختیار ہونے كے باوجود اسے استعمال نہیں كیا جاتا كیونكہ جب تك پوری طرح جرم ثابت نہ ہوجائے كسی كی پگڑی نہیں اچھالنا چاہتے۔ چیرمین نیب نے اس موقع پر احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہائی پروفائل كیسز كی فہرست بھی جاری كی۔
دوسری جانب کوئٹہ کی احتساب عدالت نے سابق مشیر خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کی پلی بارگین کی درخواست اعتراض لگا کرواپس کردی۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔