پبلک ٹرانسپورٹ اور پسماندگی

ایک زمانے میں سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کئی سو بسوں کے فلیٹ کی مالک تھی


Dr Tauseef Ahmed Khan February 16, 2013
[email protected]

لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ فروری 2013 میں مکمل ہوا۔ کراچی اور اسلام آباد کے بارے میں ایسے منصوبے فائلوں میں موجود ہیں۔ لندن میں 1863 میں زیر زمین میٹرو کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔ 20 ویں صدی کے وسط تک واشنگٹن، نیویارک، پیرس اور ماسکو میں زیر زمین ریل گاڑیوں کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے تھے۔ ہمارے پرانے دشمن بھارت کے سب سے گنجان آباد شہر کلکتہ میں 1984 میں زیر زمین ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی کے شہری 2006 سے اس جدید تیز رفتار نظام سے مستفید ہورہے ہیں۔ شہری ماہرین کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں عوام کے لیے ایک پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام موجود تھا۔ کراچی میں 19 ویں صدی کے اختتام سے ٹرام وے چلتی تھی۔

پہلے اسے گھوڑے کھینچتے تھے، پھر ڈیزل انجن کی دستیابی کے بعد ٹرام کی رفتار تیز ہوئی۔ 70 کی دھائی تک چاکیواڑہ، کیماڑی، سولجر بازار، صدر اور سٹی اسٹیشن، کینٹ اسٹیشن تک محمڈن ٹرام وے کمپنی کی ٹرام چلتی تھی۔ پھر ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے شروع ہوئی۔ سرکلر ریلوے کی گاڑیاں وزیر مینشن، سٹی اسٹیشن سے ایک طرف ڈرگ روڈ اور پپری تک جاتی تھیں تو دوسری طرف یہ نظام لیاقت آباد اور ناظم آباد سے منسلک تھا۔ کراچی کے پرانے باشندے بتاتے ہیں کہ سرکلر ریلوے کے ذریعے لاکھوں لوگ روزانہ شہر آتے اور جاتے تھے، یوں شاہراہ فیصل اور ایم اے جناح روڈ سمیت کئی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہوتا تھا اور عام آدمی سستے ٹکٹ کے ذریعے کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچ جاتا تھا۔

کراچی کے اس ٹرانسپورٹ کے ماڈل کو زیر زمین ریل کے نظام میں تبدیل کیا جاتا اور ملک کے بڑے شہروں ڈھاکہ اور لاہور میں اس نظام کے نفاذ کے لیے اقدامات ہوتے تو پاکستان دنیا کے جدید ممالک میں شامل ہوتا۔ اس طرح سے دارالحکومت اسلام آباد کے ابتدائی دور سے ہی جدید ماس ٹرانزٹ پروگرام کی گنجائش رکھنی چاہیے تھی مگر اس ملک میں عوام کو بنیادی اہمیت نہ دینے کی پالیسی ہمیشہ سے ہے۔ اس بنا پر انگریزوں کے دیے ہوئے نظام کو ختم کرنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ پہلے ٹرام وے سروس کو ٹریفک میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔ دنیا بھر کے جدید شہروں میں الیکٹرانک ٹرام چلنے لگی تھی مگر ہمارے پالیسی ساز اداروں نے دوسری پالیسی اختیار کی۔ یوں سرکلر ریلوے کی کارکردگی پر فرق آنا شروع ہوا۔ پہلے ریل گاڑیوں کے لیٹ ہونے کا تصور نہیں تھا۔ صبح اور شام کے اوقات میں ہر 15 منٹ بعد ریل آتی تھی۔ اب یہ دورانیہ بڑھنے لگا، راستے میں انجن فیل ہونے لگے۔ ریل گاڑیوں میں بجلی کے بلب روشن ہونا بند ہوئے، پنکھوں کی ہوا مسافروں تک پہنچنے سے پہلے ہوا میں تحلیل ہونے لگی۔

ریل گاڑیوں کے متبادل نیلے پیلے رنگ کی منی بس سڑکیوں پر نظر آنے لگی۔ پہلے کراچی شہر میں ڈبل ڈیکر بس چلی تھی۔ ایک زمانے میں سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کئی سو بسوں کے فلیٹ کی مالک تھی، یوں گجرات ٹرانسپورٹ اور دوسرے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کی بسیں چلتی تھیں۔ ایک زمانے میں سوئیڈن نے جدید بس کراچی والوں کو تحفے کے طور پر دی تھی۔ ان بسوں میں آرام دہ سیٹیں اور پبلک ایڈریس سسٹم بھی موجود تھا۔ سرکلر ریلوے، ٹرام وے اور بڑی بسوں کے اس نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنا تھا جس کی باقی شہروں میں بھی پیروی ہوتی تھی مگر جنرل ایوب خان کے دور میں برسرِ اقتدار سیاست دانوں، بیوروکریسی اور ٹرانسپورٹ مافیا کا اتحاد منظر عام پر آیا۔ اس اتحاد کے مفاد میں ٹرام وے سروس بند کی گئی۔ ریلوے کی بیوروکریسی کو بھاری کمیشن دے کر سرکلر ریلوے کے معیار کو پست کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کراچی شہر میں کئی بڑی جدید سڑکیں تعمیر ہوئیں مگر ایس آر ٹی سی کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کیا گیا۔ بدعنوان افسران اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ یوں یہ کمپنی خسارے میں مبتلا ہوگئی اور متبادل کے طور پر پیلے رنگ کی منی بسیں شہر کی سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سرکلر ریلوے اور ایس آر ٹی سی کو بچانے پر توجہ نہیں دی گئی، عام آدمی کے لیے منی بسوں میں مرغی بن کر اور بسوں میں لٹک کر سفر کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہا۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے مضبوط ہونے کے نتائج 1986 سے برآمد ہونا شروع ہوئے۔ کراچی کے سرسید کالج کی لڑکی بشریٰ زیدی کی تیز رفتار منی بس کی ٹکر سے کچل کر ہلاکت کے بعد شہر میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔

وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کی بنیاد رکھی مگر فہیم الزمان کے کے ایم سی سے رخصت ہونے کے بعد یہ منصوبہ فائلوں میں دب گیا۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں پیلی ٹیکسی اسکیم رائج کی، بینکوں نے اس اسکیم کے لیے اربوں روپے مختص کیے۔ اس اسکیم کے تحت مرسڈیز ٹیکسیاں بھی درآمد کی گئیں۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکسیاں چند برسوں بعد لوہے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوئیں۔ اگر میاں صاحب وژن استعمال کرکے یہ رقم لاہور اور کراچی میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کے نظام پر خرچ کرتے تو ٹرانسپورٹ کے نظام میں بنیادی تبدیلی آجاتی۔ ایک سینئر صحافی صبیح الدین غوثی مرحوم نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ پہلے لیگی اسکیم سے تین بینک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے مگر ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہوتا چلا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام کے پہلے ناظم نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ نے شہر میں بڑی سڑکوں اور اوور ہیڈ برجوں کی تعمیر شروع کی۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کی ترقی میں جنرل پرویز مشرف نے ذاتی دلچسپی لی مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا سستا اور محفوظ نظام ان کی ترجیح نہ رہا۔ نعمت اﷲ خان نے مختلف پرائیوٹ کمپنیوں کو جدید بسیں چلانے پر راغب کیا۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی بینک لیزنگ پالیسی کے تحت کراچی میں پہلی دفعہ جدید بسیں سڑکوں پر آئیں جو ایئرکنڈیشنڈ تھیں اور ان کے آٹو میٹک دروازے تھے مگر چند سال بعد ہی یہ بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔

اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ بینکوں کی قسطوں کی عدم ادائیگی پر ان میں سے بہت سی بسیں بینکوں نے ضبط کرلیں، کچھ ٹرانسپورٹرز محفوظ ماحول اور زیادہ منافع کے لیے ان بسوں کو پنجاب لے گئے۔ پھر جب ایم کیو ایم کے ناظم مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو انھوں نے شہر کی ہیئت تبدیل کردی۔ کراچی شہر خوبصورت سڑکوں، جدید پلوں اور زیرِ زمین راستوں کی بنا پر دنیا کے جدید شہروں میں شامل ہوگیا۔ سہراب گوٹھ سے مائی کلاچی تک کا سفر گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں تبدیل ہوا مگر پھر سگنل فری کوریڈور کا تصور آیا۔ غریب آدمی، عورتیں اور بچے سڑک پار کرنے سے محروم ہوئے۔ جب سڑکوں پر پیدل چلنے والے افراد کے حادثوں کی شرح بڑھی تو پیڈسٹیرین پل تعمیر ہوئے، مگر بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے نئی مصیبت کھڑی ہوگئی۔

اس دور میں پبلک ٹرانسپورٹ تباہی کا شکار ہوئی۔ مصطفیٰ کمال نے اپنے آخری دور میں گرین بس سروس متعرف کرائی مگر یہ بہت زیادہ علاقے میں نہیں جاسکی۔ اب کراچی سمیت ملک بھر میں چین کے تیار کردہ چنگ چی رکشے سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ شاید چینیوں نے یہ مشین پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے تیار نہ کی ہو مگر گزشتہ پانچ برسوں سے اب شہروں میں غریبوں کے لیے چنگ چی کی خطرناک سواری کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار دستیاب نہیں ہے۔

کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ کا کہنا ہے کہ کراچی میں چنگ چی مالکان کی ایک مافیا ظہور پذیر ہوئی ہے جو اس غیر قانونی سواری پر پابندی کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ہی صورتحال ملک بھر میں ہے۔ صدر زرداری نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد چین کا دو ہفتے کا دورہ کیا تو ان کے خیر خواہ یہ کہتے تھے کہ وہ چین سے ٹرانسپورٹ اور آبپاشی سمیت کئی شعبوں کے تجربات پاکستان میں شروع کرائیں گے، پھر ان کا بچپن اور جوانی کراچی کی سڑکوں پر گزرا، اس لیے وہ کراچی میں ماس ٹرانزٹ پروگرام میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں، جمہوریت سے عقیدت رکھنے والے ان صاحبان کی یہ خواہش تو پوری نہ ہوسکی مگر شہباز شریف ترکی سے میٹرو بس کا پروجیکٹ لے آئے۔ لاہور کے شہریوں کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کچھ برسوں کے لیے حل ہوا، مگر جدید شہروں کی ترقی کا مطالعہ کرنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ اب ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا دائمی حل تمام بڑے شہروں میں زیر زمین ریل، الیکٹرانک ٹرام اور بڑی بسوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ برطانیہ، امریکا، روس اور بھارت سمیت بہت سے ممالک یہ تجربات کرچکے ہیں۔ ہمیں جدید نظام کی طرف قدم بڑھانے چاہئیں۔ پرانے راستوں پر چل کر اور عوام کے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرکے ترقی نہیں کی جاسکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں