
خوشنود علی شیخ کو گلستان جوہر میں گھر لینے کے 2 ہفتے بعد ہی دھمکی آمیز کال آئی جس کے بعد ان کے گھر پر ایک پرچی بھیجی گئی جس میں ان سے 50 ہزار روپے بھتہ طلب کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس دھمکی پر کوئی دھیان نہ دیا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد انہیں ایک اور کال موصول ہوئی جس میں بھتہ وصول کرنے والوں نے کہا کہ "تم کیا سمجھتے ہو تم کیا کر رہے ہو، ہم تمہارے، تمہاری بیوی اور بچوں کے ٹکرے ٹکرے کر کے بوری میں بند کر کے پھینک دیں گے۔"
اس دھمکی کے بعد خوشنود علی شیخ نے خطرہ بھانبتے ہوئے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور وہ گلستان جوہر کا گھر بیچ کر اسلام آباد منتقل ہو گئے لیکن وہاں بھی بھتہ خوروں نے ان سے 2 دفعہ رابطہ کیا۔ اسلام آباد میں کچھ عرصہ امن سے گزرنے کے بعد خوشنود علی شیخ نے واپس کراچی منتقل ہونے کا سوچا، کراچی سے دور رہنا ان کے لئے کافی مشکل تھا کیونکہ اس شہر میں وہ سالوں سے رپورٹنگ کرتے آ رہے تھے۔
کراچی واپسی کا فیصلہ ان کے لئے ٹھیک ثابت نہ ہوا اور گزشتہ روز خوشنود علی شیخ کو گلستان جوہر میں ان کی رہائش گاہ کے نزدیک ایک گاڑی نے بے دردی سے کچل کر ہلاک کر دیا۔ وہاں موجود عینی شاہدین کے مطابق یہ حادثہ غفلت کے باعث پیش نہیں آیا بلکہ خوشنود علی شیخ کو اس گاڑی نے جان بوجھ کر کچلا۔
خوشنود علی شیخ کی پُر اسرار موت پر پوری صحافی برادری اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حادثے کی انکوائری کرانےکا مطالبہ کیا ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔