ملکی ترقی کو بریک کیوں لگی ہوئی ہے؟

کنول زہرہ  اتوار 22 ستمبر 2024

میاںمحمد شہباز شریف اس ملک کے پہلے بھی بطور اتحادی وزیراعظم 16 ماہ ذمے داری نبھا چکے ہیں۔ رواں سال 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد وہ ایک بار پھر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی گڈ ایڈمنسٹریشن کی خاصیت تو صوبہ پنجاب میں نظر آئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقعی صوبہ پنجاب نے مسلم لیگ نون کے دور میں ہمیشہ ترقی کی ہے۔ چونکہ میرا تعلق صوبہ سندھ سے ہے، لٰہذا میں صوبہ پنجاب کو ترقی یافتہ صوبہ مانتی ہوں۔ جہاں عوام کو صوبہ سندھ کی بہ نسبت زیادہ سہولتیں حاصل ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ’’ اسپیڈ‘‘ کی تیزی جتنی صوبہ پنجاب میں نظر آئی ہے نہ جانے کیوں وفاق میں اسے بریک لگی ہوئی ہے جبکہ ان کے پاس سولہ ماہ کا تجربہ بھی ہے پھر بھی وفاقی حکومت کا ہوم ورک زیادہ اسٹرونگ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے مرکز کی حکومت کی ترجیحات عوام نہیں ہیں بلکہ ان کی ساری توجہ آکسفوڈر یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخابات کی جانب ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جس کا موازنہ برطانیہ کی لوکل یونیورسٹی سے بھی کیا جاسکے۔

آکسفوڈر تو پھرعالمی شہرت یافتہ درسگاہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنا تعلیمی معیار اس قابل بنائیں کہ ہمیں اپنا وقار بلند کرنے کی سمجھ ہو، ہم ’بھیک‘ سے چھٹکارا پانے کے لیے اچھے اور موثر اقدامات کریں، ہماری ترجیح تعلیم کا حصول ہو مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مسائل کا انبار لگا ہے اور حکمرانوں کی فکر قیدی نمبر 804 ہے، اگر حکومت درحقیقت اپنی تمام تر توجہ ملک کی ترقی وکامرانی پر لگا دے تو یقین مانیں! عوام کو یہ یاد بھی نہیں رہے گا کہ قیدی نمبر 804 کون ہے؟ کیونکہ عوام کا لیڈر وہ ہوتا ہے جو انہیں سہولیات دے، ان کی بنیادی ضرورت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کے پاس اپنے آپ کو منوانے کا یہ بہت اچھا وقت ہے، اگر وہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو… مگر!

موجودہ حالات میں ریاست نے اپنے آپ کو اس قدرکمزور ظاہر کیا ہوا ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ احتجاج کے لیے سڑکیں بلاک کر کے بریک لگے معاشی پہیہ کو مزید جام کردیتا ہے۔ مقام شرمندگی تو یہ ہے کہ گوادر میں پٹرول کی اسمگلنگ کی روک تھام کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور ریاست اسمگلروں کے ساتھ مذاکرات کرتی نظر آتی ہے یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ ریاست نے اسمگلروں کے سامنے گھنٹے کیوں ٹیکے؟ کیا اس کا جواب حکومت کو نہیں دینا چاہیے؟

حکومت کے سامنے سب سے اہم چیلنج مہنگائی کا ہے، اگرچہ 2 ستمبر 2024 کو ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق رپورٹ جاری کی۔ جس میں بتایا گیا کہ اگست 2023 مہنگائی کی جو شرح 27.84 فیصد تھی وہ رواں برس اگست میں کم ہو کر 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اکتوبر 2021 کے بعد ملک میں مہنگائی کی سب سے کم شرح ہے۔ اکتوبر 2021 میں یہ شرح 9.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، اگرچہ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار تسلی بخش ہیں مگر ماہرینِ معیشت کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ابھی بھی عام فرد کے لیے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ ماہرینِ معیشت کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو مہنگائی میں کمی کچھ اس طرح ہوئی کہ گزشتہ برس جو چیز 100 روپے سے بڑھ کر 127 روپے کی ہوئی تھی، رواں برس اگست میں وہ 100 روپے سے بڑھ کر 109 روپے کی ہوئی ہے۔

مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 100 روپے والی چیز کم ہو کر 90 روپے پر آ گئی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے پسے ہوئے طبقے میں خود کشی کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زنا، ہراسگی، بچوں کے ساتھ جنسی واقعات اور دہشت گردی سمیت دیگر چھوٹے بڑے جرائم کی خبریں عوام کو مزید ڈپریشن کا مریض بنا رہی ہیں۔

حکومت کو کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو قابو میں لانے کے ساتھ بجلی، گیس پانی کے بلوں میں کمی اور ان کی بلا تعطل فراہمی درکار ہے۔ ان بنیادی سہولیات کے ساتھ بچوں کی تعلیم، ہاؤسنگ اور معاشی و زندگی کی سہولیات کے دیگر اشاریوں پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ قدرتی معدنیات سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا اہم صوبہ ہے۔ جس کی اہمیت یہ ہے کہ ایک تو یہ رقبے کے لحاظ سے دوسرے صوبوں کی بہ نسبت بڑا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی سرحدیں دوسرے ممالک سے ملتی ہیں۔ جس میں سے دو ملک ہمارے دوست نہیں ہیں۔

ہندوستان اور افغانستان بلوچستان میں دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں۔ جس میں ایران کا بھی کردار ہے۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان میں موجود قدرتی معدنیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف صوبے کی زبوں حالی بدلنی ہوگی بلکہ ملک کے معاشی حالات بھی بہترکرنے ہونگے۔ یہ مثبت بات ہے کہ شہباز حکومت کے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات متوازن ہیں۔ چین اور سعودی عرب شہباز شریف کی حکومت سے بہت خوش ہیں اسی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ بہت سے پروجیکٹس بھی سائن ہوئے ہیں اور سی پیک پر کام پھر بحال ہوا ہے جو کہ تسلی بخش بات ہے مگر ترقی کی رفتار بہت ست ہے۔ جس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ضروری ہے۔

حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اسے عوام مہنگائی کی وجہ سے ذہنی تناؤکا شکار ہوچکے ہیں، جس میں فوری ریلیف کی ضرورت ہے، اگرن لیگ کی حکومت مہنگائی پر قابو اور عوام کو بلا تعطل بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شہباز شریف حقیقی مقبول لیڈر ثابت ہونگے۔ آخر حکمران کب اس نقطے پر سنجیدگی سے سوچیں گے؟ یاد رہے، مزید تاخیر مناسب نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔