- تاجروں کو یقین ہے ایک ماہ میں بجلی کی قیمتیں کم ہوجائیں گے، تاجر رہنما
- اسکول کی کامیابی کیلیے کالا جادو؛ کم سن طالبعلم کی بَلی چڑھا دی
- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کے خطاب کے دوران پاکستان کا احتجاجاً واک آؤٹ
- اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان، 53 فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں
- آئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط موصول، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ
- گینگ آف تھری کیلیے آئینی ترامیم کی جارہی ہیں، علیمہ خان
- انڈونیشیا؛ مٹی کا تودا گرنے سے سونے کی کان دب گئی؛ 15 افراد ہلاک
- راولپنڈی؛ پی ٹی آئی کے احتجاج کے اعلان پرلیاقت باغ سیل، پولیس کی بھاری نفری تعینات
- غزہ میں جاری مظالم کی صرف مذمت کافی نہیں بلکہ خونریزی کو روکنا ہوگا، وزیر اعظم
- سوات میں غیرملکی سفیروں پر حملہ، دورے سے وفاقی حکومت نے آگاہ نہیں کیا، بیرسٹر سیف
- صدر مملکت کی ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ شہید کے اہل خانہ سے تعزیت
- جوبائیڈن حکومت میں امریکا تاریخ کے بدترین سرحدی بحران سے گزر رہا ہے، ٹرمپ
- ایف آئی اے کے گزشتہ 6 سال میں اہم مقدمات کے چالان عدالت میں پیش نہ کیے جا سکے
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار ایک ماہ کی چھٹی پر چلے گئے
- سعودی عرب کا فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے انٹرنیشنل الائنس کی تشکیل کا فیصلہ
- جولائی اور اگست کے دوران مہنگائی میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوا، وزارت خزانہ
- شیزوفرینیا کے علاج کیلئے نئی دوا کی منظوری
- ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں پھر سے معمولی اضافہ
- زیبسسٹ کو ایم ڈی کیٹ کا پیپر ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنے کا حکم
- فائز عیسیٰ جیسی حرکتیں کررہا ہے مجھے وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں لگ رہا، عمران خان
آپ بھی تو خوب صورت ہیں۔۔۔!
ہم اگر آج سے دس، پندرہ سال پیچھے چلے جائیں، تو مائیں بیٹیوں کے وزن بڑھ جانے کے معاملے کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی شخصیت کے حوالے سے بھی کافی محتاط ہوتی تھیں اور ان کی یہی سوچ ہوتی تھی کہ اگر وزن بڑھ جائے تو لڑکی کی عمر زیادہ لگنے لگے گی، اور اگر عمر زیادہ لگنے لگے گی تو پھر اس کے لیے رشتے نہیں آئیں گے، کچھ کو یہ بھی خدشہ لاحق ہوتا تھا کہ مُٹاپے کے سبب مختلف بیماریاں بھی جنم لے لیں گی، اس کے علاوہ اگر سانولی رنگت ہو تو اس کی خوب صورتی بھی مُٹاپے میں دب جائے گی اور رکھ رکھاؤ بھی شخصیت کا حصہ ہو تو لوگوں کی نظر میں اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
مگر اگر ہم آج کی بات کریں، تو بے شک یہ ’مصنوعی ذہانت‘ اور ’انٹرنیٹ‘ کا دور ہے، اس سے پہلے ہی مختلف ٹی وی چینلوں کی بھر مار ہے، جگہ جگہ ’جِم‘ کھلے ہوئے ہیں، مگر ماؤں کا رویہ بیٹیوں کی شخصیت سازی اورجسمانی خدوخال کے حوالے سے کافی بدل چکا ہے اور اس کا اندازہ آپ کو مختلف محفلوں میں شرکت کرنے سے ہوتا ہے۔۔۔ تیرہ ،چودہ سال کی بچیوں کا وزن بڑھا ہوا ہونے کے ساتھ شخصیت سازی کا عمل بھی مفقود نظر آتا ہے۔
اس کی وجوہات واضح نظر آتی ہیں آ ج کل مائیں ٹی وی پر ہیروئنوں کو متناسب خدوخال اور خوب صورتی کے معیار پرپورا اترنے کے ساتھ مختلف انٹرویوز میں بات چیت میں متوازن انداز اور رکھ رکھاؤ میں دیکھتی ہیں تو ان کا انداز یہ ہوتا ہے کہ سب پیسے کا کھیل ہے، ان کے پاس پیسہ ہے، یہ جم، اور صحت بخش غذا کی متحمل ہو سکتی ہیں اور شخصیت سازی کے لیے مختلف سیمیناروں میں شرکت کر سکتی ہیں، ہم تو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے لیے یہ سب ممکن نہیں، حتیٰ کہ ایسا کچھ نہیں، وہ آسمان سے نہیں اتری ہوئی ہوتیں، وہ اپنے اوپر محنت کرتی ہیں اور تب ہی اسکرین پر خوب صورت نظر آنے کے قابل ہوتی ہیں۔
اگر آپ بھی یہ بات جانے کی کوشش کریں کہ آپ کی بیٹی کا وزن کیوں بڑھ رہا ہے؟ اور کس طرح اس کی شخصیت کی طرف بھی لوگ متوجہ ہو سکتے ہیں، تو آپ کی بیٹی بھی ایک بہترین شخصیت کی مالک بن سکتی ہے۔ آج کل مُٹاپے کی وجوہات میں فاسٹ فوڈ، حد سے زیادہ کھانا، جسمانی مشقت کے بہ جائے آرام طلب ہونا، کولڈ ڈرنک پینا اور اس کے ساتھ ساتھ مُٹاپے کو کوئی ’بری چیز‘ نہیں سمجھنا شامل ہیں۔ اگر آپ سب سے پہلے اپنی بیٹی کو ان عادات سے دور کیجیے جو جسم کو فربہ کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اس بات کا احساس دلائیے کہ وہ موٹی ہو رہی ہے اس لیے جسمانی مشقت اور چہل قدمی بے حد ضروری ہے۔ اس کی غذا میں سوپ، سلاد اور پھل شامل رکھیے تاکہ وہ روٹی اور چاول وغیرہ کم کھائے، جس سے وزن بڑھنے کے امکانات ذیادہ ہوتے ہیں۔
مُٹاپے کو کم عمری میں روکنے کی شدید ضرورت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ جب بچیاں بڑی ہوتی ہیں اور انھیں مٹاپے کی وجہ سے دوسروں کی مضحکہ خیز نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں اور آج کے دور میں ڈپریشن بھی ایک ایسا مرض ہے جس کا بروقت علاج ضروری ہے ورنہ اس کا خمیازہ کسی سنگین نتیجے کی صورت میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
اس سب کو پڑھنے کے بات ایک سوچ جو یقینا ماؤں کے ذہن میں آئے گی وہ یہ ہوگی کہ کیا خوب صورتی کا معیار دبلا پتلا ہونا ہی ہے، تو ایسا ہر گز نہیں، مگر کچھ خوب صورتی کے معیار دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے طے کیے جاتے ہیں، اگر آپ کو معتدل اور متناسب جسامت کا مالک بننا ہے، اپنی قدرتی رنگت کا خیال کرنا ہے، اور اس کے ساتھ گفت و شنید اور رکھ رکھاؤ میں بہترین ہونا ہے، تو اپنی ذات کی خاطر کیوں کہ جب انسان اپنا خیال رکھتا ہے، تو اسے مسرت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو دیکھ کر احساس کم تری نہیں ہوتا، بلکہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ میں بھی خوب صورت شخصیت کی مالک ہوں، کیوں کہ ہر انسان اپنے اندر خوب صورت ہوتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔