خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات

رئیس فاطمہ  ہفتہ 28 ستمبر 2024
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی آپ نے غور کیا کہ ہمارے ملک میں خودکشی کا رجحان کیوں اس قدر بڑھ رہا ہے۔ اخبار میں خبر پڑھ کر یا ٹی وی کی نیوز سن کر ہم اب بے چین نہیں ہوتے،کبھی خبر آتی ہے کہ ایک شخص نے اپنے پانچ بچوں اور بیوی سمیت خودکشی کر لی،کبھی سننے کو ملتا ہے کہ کسی ماں نے اپنے تینوں بچوں کو نہر میں پھینک کر خود بھی چھلانگ لگا دی۔ یہ اور اس قسم کی خبریں اب عام ہونے لگی ہیں۔ کبھی بے روزگاری سے تنگ آ کر کسی نے خودکشی کر لی، آخر اس کی وجہ اور اسباب کیا ہیں کہ انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لے۔ زیادہ تر واقعات میں لوگ پنکھے سے لٹک کر جان دے دیتے ہیں۔ کبھی محبت میں ناکامی بھی خودکشی کا سبب بن جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ہم نے اپنے والدین یا بزرگوں سے کبھی ایسے قصے نہیں سنے کہ کسی نے کسی بھی بنا پر خودکشی کی ہو۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے، لوگ اپنی جان کے درپے کیوں رہنے لگے ہیں کہ اپنے بچوں کا گلا بھی اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹنے لگے ہیں۔ بنیادی وجہ غربت ہے، ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے کہ:

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

لیکن میری نظر میں اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے پہلی وجہ تقسیم کے بعد خاندانوں کا منتشر ہونا اور مشترکہ خاندانی نظام کا ختم ہونا ہے۔ غربت پہلے بھی تھی، لیکن پہلے لوگ ایک چھت کے نیچے رہتے تھے، ماں باپ، بھائی، دادا، دادی اور بہنیں، بعض بڑے گھروں میں چچا تایا بھی ساتھ ہی رہتے تھے۔ خود میرے نانا کا گھر دہلی میں بہت بڑا تھا، ان کے تین بیٹے شادی شدہ تھے اور ساتھ ہی رہتے تھے، گھر والوں میں بڑوں کا احترام بہت تھا، لیکن تقسیم کے بعد جب پورا خاندان پاکستان آ گیا تو لوگ بکھر گئے۔

نانا سید محمد علی چشتی کا انتقال تقسیم سے ذرا پہلے ہوگیا تھا، میرے نانا اور والد دونوں مسلم لیگی تھے اور جماعت کے لیے کام بھی کرتے تھے، اکثر مسلم لیگ کے جلسے نانا کے زیر انتظام ہوتے تھے۔ وہ پاکستان کا خواب دیکھتے دیکھتے راہی ملک عدم ہوئے۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی، خودکشی کی وجوہات میں پہلی وجہ غربت اور جوائنٹ فیملی سسٹم کا ختم ہو جانا ہے۔

پہلے جب کوئی بیمار ہوتا تھا توگھر کے دیگر افراد اس کی دیکھ بھال کرتے تھے، اگر کوئی کسی مشکل میں ہوتا تھا تو باپ بھائی، تایا چچا، ماموں خالہ اس مشکل کو حل کروانے میں مدد دیتے تھے، یوں چھوٹی چھوٹی پریشانیاں سب مل بانٹ کر حل کر لیتے تھے، لیکن 1947 کے بعد منظرنامہ بالکل بدل جاتا ہے، پہلے جو تین یا چار بھائی ایک ہی چھت کے نیچے رہا کرتے تھے وہ تقسیم کے بعد تتر بتر ہوگئے۔ ہر ایک نے اپنا گھونسلا الگ بنا لیا کہ مجبوری تھی، لٹے پٹے خاندانوں کے لیے حویلی نما گھر تلاش کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا جس کے جہاں سینگ سمائے وہ چلا گیا اور خرابی یہیں سے شروع ہوئی۔ اب پریشانی میں کوئی تسلی دینے والا نہ رہا، ماں باپ کبھی ایک بیٹے کے ہاں، کبھی دوسرے کے۔ ان کا اپنا ٹھکانہ چھوٹ گیا اور ساتھ ہی مزاج بھی بدل گئے۔ اب ماں باپ بیٹے اور اس کی بیوی کے رحم و کرم پر تھے۔

بعض لوگ جب مایوسی کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں تو انھیں ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ خودکشی کر لی جائے۔ انسان کے آگے جب یہ سوال ہوں کہ گھر کا کرایہ کہاں سے ادا ہوگا، گیس، بجلی کے بل کہاں سے ادا ہوں گے، آٹا چاول اور دال کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے تو انسان مایوسی کی انتہا کو پہنچ کر خودکشی کو ترجیح دیتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اخبارات میں ٹی وی کی خبروں میں اور سوشل میڈیا پر مسلسل یہ خبر چلتی رہی کہ ایک خاتون کا بجلی کا بل اتنا زیادہ آیا کہ انھوں نے نہر میں کود کر جان دے دی کہ بجلی کے بل بھرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور کوئی تسلی دینے والا بھی نہیں تھا۔خودکشی کے رجحان میں اضافے کی وجہ ڈپریشن کا بڑھنا اور مایوسی کا شکار ہونا ہے۔

انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایسا نہیں ہوتا تھا، کوئی اگر کسی وجہ سے پریشان ہوتا تھا تو اسے تسلی دینے والے موجود تھے۔ اسے دلاسہ دینے کے لیے کوئی نہ کوئی کندھا حاضر تھا جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ڈپریشن کو بڑھانے میں ہمارے ٹی وی ڈراموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ عام طور پر کسی بھی ڈرامے میں دیکھ لیجیے کہ بڑے بڑے عالی شان گھر، لگژری گاڑیاں، قیمتی لباس، دولت کی فراوانی دیکھ کر ایک عام آدمی شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے کوئی یہ مشورہ دینے والا نہیں ہوتا کہ وہ سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کر لے کیونکہ آگاہی نہیں ہے۔ سائیکاٹرسٹ آپ کو ڈپریشن سے نکالنے میں مدد دیتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سائیکاٹرسٹ کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ڈپریشن کی دوائیں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک انسان جس کی ملازمت چلی گئی ہو، وہ کیسے مایوسی سے نکل سکتا ہے۔ اس کے پاس سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، اسے یہ آگاہی بھی نہیں ہوتی کہ ڈپریشن سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں، لیکن وہ اکیلا ہوتا ہے۔ سامنے بیوی بچے ہیں جن کی ذمے داری اس پر ہے، تب وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنی جان ختم کر لیتا ہے۔خودکشی کے رجحان میں اضافے کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ہم سب اپنی اپنی ذات کے اسیر اور تنہائی پسند ہوگئے ہیں، سب اپنی ذات کے خول میں بند ہیں۔ ہماری دنیا سمٹ کر موبائل کی اسکرین میں سما گئی ہے۔

ایک ہی گھر میں رہنے والے بچے بھی موبائل کی دنیا میں گم ہیں۔ آپس میں مکالمہ نہیں ہوتا، والدین اور بچوں کے درمیان بھی مکالمہ نہیں ہوتا۔ وہ کھانے کی ٹیبل پہ بھی موبائل ساتھ رکھ کر کھانا کھاتے ہیں، ماں باپ کے ٹوکنے کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ہم میں سے اکثریت اسی موبائل کی دنیا کی قیدی بن گئی ہے، جب سے یہ موبائل فون ہماری زندگیوں میں آیا ہے دنیا ہی بدل گئی ہے۔ پہلے بھی پی ٹی سی ایل فون تھا لیکن یہ حال نہیں تھا کہ کسی کو کسی کی خبر ہی نہیں۔ پہلے لوگ چھٹی والے دن ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے، ملتے ملاتے تھے، پڑوسیوں سے تعلقات رکھتے تھے، کوئی خاص چیز پکتی تھی تو پڑوسیوں کے گھر بھی بھیجی جاتی تھی، حلیم، شب دیگ، نہاری یا مٹن بریانی پکتی تھی تو پڑوس میں ضرور بھیجی جاتی تھی، لیکن مہنگائی نے سب کچھ ختم کر دیا ہے۔

رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی، موبائل فون سے پہلے لوگ اپنے پڑوسیوں کا حال چال جاننے کے لیے ان کے گھر بھی جایا کرتے تھے لیکن اب کسی کے پاس وقت نہیں۔ آپ کسی سے بات کرتے وقت گلہ کیجیے کہ بھئی اتنا عرصہ ہو گیا ملاقات نہیں ہوئی تو جواب ملے گا کہ ’’بھئی وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ اور وقت کیوں نہیں ملتا کہ موبائل فون جان نہیں چھوڑتا۔ رات سات بجے سے دس بجے تک پرائم ٹائم کے ڈرامے دیکھنا بھی ضروری ہے۔

ہم سب اپنے اپنے خول میں بند ہو گئے ہیں۔ کسی کے پاس بھی کسی دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے اور انسان اس طرح تنہائی کے آسیب کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر یہ تنہائی اسے زندگی سے بے زار کر دیتی ہے۔ اوپر سے مسلسل مہنگائی کی شرح کا بڑھنا، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا بڑھنا اور بے روزگاری، انسان کرے تو کیا کرے۔ بس اسے نجات اس میں نظر آتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔